Saturday, May 25, 2019

استاد کا احترام پاٹ ١

No comments:
  1. اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کو احسن تقویم ارشادفرمایاہے ،مصوری کا یہ عظیم شاہکار دنیائے رنگ وبو میں خالق کائنات کی نیابت کا حقدار بھی ٹھہرا۔اشرف المخلوقات، مسجود ملائکہ اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے متصف حضرت انسان نے یہ ساری عظمتیں اور رفعتیں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں ورنہ عبادت و ریاضت ،اطاعت و فرمانبرداری میں فرشتے کمال رکھتے تھے،ان کی شان امتثال کو اللہ کریم نے قرآن پاک میں بیان فرمایاہے کہ وہ اللہ کی کسی بات میں نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ (التحریم ۔6) ۔علم ،عقل و شعور، فہم وادراک ،تمیز ، معرفت اور جستجو وہ بنیادی اوصاف تھے جن کی وجہ انسان باقی مخلوقات سے اشرف واعلیٰ اور ممتازقرار دیا گیا۔
    یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ حصول علم درس و مشاہدہ سمیت کئی خارجی ذرائع سے ہی ممکن ہوتا ہے،ان میں مرکزی حیثیت استاد اور معلّم ہی کی ہے،جس کے بغیر صحت مند معاشرہ کی تشکیل ناممکن ہے ،معلّم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور ،منبہ ومرکز ہوتا ہے ،ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کوایک خاص مقام و مرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب ،توانا،پرامن اور باشعور معاشرے کا قیام استاد ہی مرہون منت ہے ۔
    اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ،بنی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا " مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔229)۔ اسلام نے استادکو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی ،محترم ومعظم شخصیت ، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31) ۔انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا" رحمٰن ہی نے قراٰن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی"۔(الرحمٰن)ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا "پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا"۔(العلق ۔6)
    معلّم کائنات نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء کرام کو معلّم و مربّی بنا کر بھیجا ،ہر نبی شریعت کامعلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور معلّم بھی ہوتا تھاجسے حضرت اٰدم ؑ دنیا میں ذراعت، صنعت وحرفت کے معلّم اوّل تھے ،کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس ؑ نے ایجاد کیا،حضرت نوح ؑ نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا،حضرت ابراہیم ؑ نے علم مناظرہ اور حضرت یوسف ؑ نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔خاتم الانبیاء ﷺنے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایاتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔(بخاری ۔5027)معلّم کے لیے نبی کریم ﷺکی بشارت حضرت ابو ہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ؛غور سے سنو،دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں یعنی نیک اعمال،عالم اور طا لب علم ( یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دورنہیں ہیں)۔(ترمذی۔2322)استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے ،مخبر صادقﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،ان کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ۔2675)اساتذہ کے لیے نبی کریم ﷺ نے دعافرمائی کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا۔(ابو داؤد۔366)
    خیر القرون میں معلّمین کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلّمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ
    انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم ۔21)حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں ۔حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔(تعلیم المتعلم 22)
    حضرت عبداللہ بن عباسؓ اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے، علم حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے ،ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی ،جب وہ حضرات اپنے کا م سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر اور طالب علم پاتے اورآپ استاذ کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرادل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں(دارمی)۔یہی ادب تھا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کوامام المفسرین ، حبر الامت اور بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت ابوہریرہؓ،حضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے سینکڑوں صحابہ کرام نے معلّم کائنات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ،تربیت اور تزکیہ کی چکی میں پسے آپ ﷺ کی مجلس میں ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ صحابہ کرامؓ چہرہ انورﷺ کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے،بیٹھنے کا اندازایسا مؤدبانہ ہوتا تھا کہ پرندے آ کرصحابہ کے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔
    امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ھدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدینؒ بیان فرماتے ہیں کہ ائمہ بخارا میں سے ایک امام دوران درس بار بار کھڑے ہو جاتے،شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاد کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں ۔
    قاضی امام فخر الدین ارسابندی ،اللہ نے ان کو علماء میں بڑا مقام عطا فر مایا تھا،بادشاہ ان کی بہت عزت کرتا تھا،بادشاہ ان سے کہا کرتا تھا کہ میں نے یہ عزت و مرتبہ اپنے استاد کی دعا اور خدمت سے حاصل کیا ہے ، میں نے تیس سال قاضی امام ابو یزید دبوسی ؒ کی خدمت اور ان کے لیے کھانا پکایا ہے اور اس کھانے میں سے کبھی نہیں کھایاتھا۔
    علماء ہند میں حضرت شیخ الہند محمود حسن ؒ علم و فضل ،تقوٰی و طہارت ،جہد و عمل ،تواضع و انکساری میں منفرد مقام کے حامل تھے، شیخ العرب و العجم حضرت حسین احمد مدنی ؒ کو دیکھا گیا کہ باوجود اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے اپنے استاد شیخ الھند ؒ کے گھر کا پانی اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتے تھے۔
    شمس الائمہ علامہ حلوانی ؒ نے بخارا کو خیر آباد کہا اور کسی دوسری جگہ تشریف لے گئے تو آپ کے تمام تلامذہ آپ کی زیارت کے لیے آئے سوائے قاضی شمس الائمہ الزرنوجی ؒ کے،جب استاد کی شاگرد سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ آپ میری ملاقات کوکیوں نہیں آئے تھے؟ عرض کیا کہ والدہ کی خدمت میں مشغولیت مانع تھی۔ امام نے کہا کہ آپ عمر لمبی پائیں گے مگر درس نصیب نہیں ہو گا،استاد کے منہ سے نکلی ہوئی اس بات کو وقت نے سچ ثابت کیا کہ علامہ زرنوجی ؒ زندگی کا اکثر حصہ دیہاتوں میں رہے آپ کو تدریس کا موقع نہ میسر آسکا۔ خلیفہ ہارون رشید نے امام اصمعی ؒ کے پاس اپنا بیٹا تحصیل علم و ادب کے لیے بھیجا ،ایک دن خلیفہ نے دیکھا کہ امام اصمعی وضو کر رہے ہیں اور اس کا بیٹااستاد کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔خلیفہ نے امام صاحب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیٹا اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اس کو علم و ادب سکھائیں ،آپ اسے یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں پرپانی ڈالے اوردوسرے ہاتھ سے اس پاؤں کودھوئے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معلّم کو سب سے بہترین انسان قرار دیا گیا ہے،استاد کے ادب کو تحصیل علم کے لیے بنیاداور اساس کہا گیا ہے ۔عربی مقولہ ہے الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔
    اگر تدریس کو بحثیت مشغلہ دیکھا جائے تو یہ مشغلہ تمام پیشوں سے اعلی ،اشرف و افضل ہے،دنیا میں لوگ جتنی بھی محنتیں کر رہے ہیں ان میں معلّم کی فضیلت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتاہے۔عربی ضرب المثل ہے کہ خیر الاشغال تھذیب الاطفال۔بہترین مصروفیت و مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے۔معلّم انسانیت پر محنت کرکے کار نبوت سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔امام الانبیاءﷺکی حدیث شریف اس پر شاھد ہے کہ علم والے نبیوں کے وارث ہیں۔(ابوداؤد۔3641)
    استادافراد کی تربیت کرکے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب کہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔پیغمبر اسلام ﷺکا ارشاد مبارک منصب تدریس کی اہمیت کو مزید واضح کردیتا ہے کہ جس شخص نے لوگوں کو خیر کی طرف بلایا ،لوگوں کے اجر کے برابر اس کو بھی اجر ملے گااور لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔(مسلم۔1893) معلّم کا فرض سب سے اہم اور اس کی ذمہ داری سب سے مشکل ہے۔ مصور پاکستان،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے معلّم کی حیثیت ،عظمت اور اہمیت کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے کہ استاددراصل قوم کا محافظ ہوتاہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوار نا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے،سب محنتوں میں اعلٰی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے،معلّم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔
    معلّم کی یہ عظمت،مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا جامع ،صبر واخلاص کا پیکر،علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہواہو۔استاد کا مطمع نظر رضا خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان قوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ معلّم کے قول و عمل میں یکسانیت،صداقت،شجاعت،قوت برداشت،معاملہ فہمی،تحمل مزاجی اور استقامت جیسے اوصاف نمایاں ہونے چاہیے کیونکہ شاگرد استاد کا عکس ہوا کرتے ہیں ۔بزرگوں کا قول ہے کہ اساتذہ نیک تو طلبہ بھی نیک،اساتذہ خود اپنے بڑوں کے قدردان تو طلبہ خود ان اساتذہ کے قدر دان ہوں گے العرض اساتذہ کرام شریعت اور سنت کے پابند ،اپنے منصب کے قدر دان ،طلبہ پر مشفق اورجذبہ خیر سگالی سے سرشارہوں تو ان کے ہاتھوں تربیت پانے والی نسلیں بھی ان ہی صفات حمیدہ کی حامل ہوں گی۔ گلشن محمدی ﷺجس کی آبیاری کے لیے پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرامؓ نے اپنی ساری توانائیاں و صلاحیتیں خرچ کر ڈالیں تھیں ،وہ ملت جس کی شان و شوکت اور عروج اپنوں کی غفلت اورغیر وں کی عیاری کی وجہ سے ماندہ پڑا ہو ا ہے ۔معلّم کا جذبہ یہ ہونا چاہیے کہ میرے ذریعے امت کے ایسے نونہال تیار ہو جائیں جو امت محمدیہ ﷺکی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دے سکیں ،وہ ایسے تناور درخت کی مانند ہوں جو سب کو چھاؤں اور پھل دیں ،جوتحقیق و جستجو کے میدانوں کے شاہسوار اور علم کے شناور ہوں،جو دنیا کو امن و سلامتی کادرس اور محبت کا پیغام دینے والے ہوں۔ایک معلّم کی یہ آرزو ہونی چاہیے کہ میری ساری زندگی کی محنت اور جگر سوزی اس لیے ہے کہ قیامت کے دن میرا حشر معلّمین، امت کے معماروں ،نگرانوں،قائدین اور رہبروں کے ساتھ ہو۔

Monday, April 1, 2019

انٹرنیٹ کے فوائد اور نقصانات

No comments:

 

انٹرنیٹ ہماری روزانہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے۔ تاہم اس کا لمبے دورانیے کے لئے مسلسل استعمال اور پھر اس کو معمول بنا لینا ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک عام فرد کی زندگی اور اس کے دیگر معمولات شدید متاثر ہوتے ہیں۔.
انٹرنیٹ کے غیر ضروری استعمال سے دراصل کسی بھی فرد کے سوچنے کے عمل اور عادات پر مضر اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اگر آپ اپنے پروفائل میں تبدیلی پر آدھا گھنٹہ لگا دیتے ہیں اور پھر اس کے باوجود بھی بغیر کسی خاص وجہ کے تین گھنٹے تک آپ کمپیوٹر کے سامنے ...موجود ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ انٹرنیٹ پر غیر ضروری وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کوئی طے شدہ لیکچر اٹینڈ کرنے یا سکول کالج کا کام چھوڑ کر کسی خاص آن لائن گیم کے اگلے لیول کےبارے میں سوچ رہے ہیں، تو یہ بھی انٹرنیٹ کے منفی استعمال کے زمرے میں آئے گا۔

اصل مسئلہ اس وقت سامنے آتا ہے، جب آپ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے حوالے سے خود پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ اگر آپ انٹرنیٹ کے استعمال کی وجہ سے اپنے سکول، ملازمت، تعلقات یا رشتوں سے انصاف نہیں کر پا رہے تو یہ انٹرنیٹ کے غیر ضروری اور منفی حد تک زیادہ استعمال کی نشانی ہے۔.
اس حوالے سے یہ امر بے حد تشویشناک ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے بیشتر صارفینِ اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ محض اندازہ نہیں، مذکورہ بالا تنظیم ’اسپاک‘ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بیشتر لوگوں کا پسندیدہ شغل، فحش اور عریاں ویب سائٹ دیکھنا ہے.
فحش ویب سائٹس کے جو اثرات انسان کی خاندانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں، ان کا جائزہ لیجیے۔
ہم اپنی اولاد اور اپنے گھروالوں دوستوں کو کس طرح فحش ویب سائٹس سے بچا سکتے ہیں؟. 
اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں۔ وہ بچوں کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں

Sunday, March 24, 2019

Friday, March 8, 2019

عذاب قبر

No comments:
عذاب قبر" شریعت اسلامیہ کی ایک خاص اصطلاح ہے۔اسے لفظی معنی ومفہوم کے ساتھ نہیں سمجھا سکتا ہے۔
دنیاوی زندگی اور آخرت کے درمیانی وقفے کو برزخ یا "قبر " کہتے ہیں۔۔۔۔
مردہ کو زمین کے جس دو گز کے ٹکڑے میں دفن کیا جاتا ہے "قبر" کی وہ حقیقی مراد نہیں ہے۔
قبر یعنی برزخ کے لئے کوئی بھی متعین ومخصوص جگہ نہیں ہے۔
روح کے جسم عنصری سے پرواز کرجانے کے بعد جسم جس شکل میں بھی ہو خواہ پانی میں ہو ، درندہ کے پیٹ میں ہو ۔ یا زمین میں مدفون ہو ۔سالم ہو یا معدوم ہوگیا ہو ۔اسے برزخ یا قبر کہتے ہیں ۔
اسی برزخی مستقر میں نیک روح کو راحت اور بری روح کو تکلیف وعذاب کا سامنا کرنا ہوتا ہے جسے عذاب قبر " کہتے ہیں ۔
عذاب قبر آخرت کے حساب کتاب اور جزاء سزا کی تمہید ہے۔ آخرت کا حساب کتاب صرف اتمام حجت کے لئے ہوگا
خدا کے علم ازلی میں جنہیں آخرت میں پکڑا جانا ہے اسے ہی برزخ میں عذاب دیا جاتا ہے ۔لہذا برزخ کے عذاب سے قبل حساب کتاب کی ضرورت نہیں ۔
عذاب قبر قرآن کریم کی متعدد آیات اور بےشمار متواتر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔اہل سنت والجماعت کا اتفاقی اور اجماعی مسئلہ ہے۔ معتزلہ جیسے گمراہوں کے سوا کسی نے بھی عذاب قبر کا انکار نہیں کیا ہے۔
قرآن کی درج ذیل آیات میں عذاب قبر کا بیان آیا ہے :
فَوَقٰہُ اللّٰہُ سیِّئَاتِ مَامَکَرُوْا وَحَاقَ بِٰاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْئُ الْعَذَابِ٭ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا۔ وَّ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (سورہ غافر:45,46)
ترجمہ: ''پھر خدا تعالیٰ نے اس (مومن ) کو ان لوگوں کی تدبیروں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں پر(مع فرعون کے ) موذی عذاب نازل ہوا(جس کا بیان یہ ہے) کہ وہ لوگ (برزخ میں) صبح وشام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں (یعنی جلائے جاتے ہیں) اور جس روز قیامت قائم ہوگی (تو حکم ہوگا کہ ) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت عذاب میں داخل کرو۔''
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن سے پہلے بھی فرعون اور اس کے لوگوں پر عذاب ہورہا ہے۔ یہی قبر کا اور برزخ کاعذاب ہے۔
-2 سورہ نوح میں ہے:
مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا
ترجمہ: ''اپنے گناہوںکے سبب وہ (یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ) غرق کئے گئے پھر آگ میںداخل کئے گئے۔''
ان لوگوںکا قیامت سے پہلے آگ میں داخلہ سے مراد برزخ اور قبر کی آگ میں داخلہ ہے جس کے یہ دلائل ہیں۔
( الف ) فَاُدْخِلُوْ میں حرف فاء ہے جو اپنے ماقبل کے متصل بعدہونے پر دلالت کرتا ہے لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ آگ میں داخلہ غرق ہونے کے متصل بعد ہوا
(۔ب۔)ادخلوا فعل ماضی کا لفظ ہے جو اس پر دلیل ہے کہ آگ میں داخلہ ہوچکاہے۔
عذاب قبر کا ثبوت احادیث مبارکہ سے :
قبر میں عذاب وراحت اور فرشتوں کے سوال کے بارے میں احادیث متواتر ہیں اور کثیر صحابہ سے منقول ہیں۔ مثلاً حضرات عمر بن الخطاب ' عثمان بن عفان' زید بن ثابت، انس بن مالک ،براء بن عازب،تمیم داری،ثوبان ،جابر بن عبداللہ،حذیفہ ،عبادۃ بن صامت ، عبداللہ بن رواحہ،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن مسعود، عمرو بن العاص، معاذ بن جبل،ابو امامہ، ابو الدرداء ابوہریرہؓ اور عائشہ رضی اللہ عنہا وعنہم۔ پھر ان سے بے شمار لوگوں نے روایت کیا۔
بطور نمونہ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :
"عن البراء بن عازب یثبت اللہ الذین آمنوابالقول الثابت فی الحیوة الدنیا وفی الآخرة قال نزلت فی عذاب القبر".(صحیح مسلم :٢/٣٨٦)
"قال اللہ تعالیٰ النار یعرضون علیہا غدوا وعشیاالآیة وتظاہرت بہ الاحادیث الصحیحة عن النبی ۖ من روایة جماعة من الصحابة فی مواطن کثیرة " .(شرح نووی علی المسلم :٢/٣٨٦)
"عن عائشة رضی اللہ عنہا ان یھودبة دخلت علیہا فذکرت عذاب القبر فسالت عائشة رسول اللہ ۖ عن عذاب القبر فقالت نعم عذاب القبر حق فقالت عائشة رضی اللہ عنہا فمارایت رسول اللہ ۖ بعد صلی صلوة الا تعوذ من عذاب القبر زادغندر عذاب القبر حق ".(صحیح بخاری : ١/١٨٣)
"عن ابن عباس قال مرالنبی ۖ علی قبرین فقال انہما لیعذبان ومایعذبان من کبیر ثم قال بلی اما احدہما فکان یسعی بالنمیمة وامااحدھما فکان لایستترمن بولہ قال ثم اخذعودارطبا ".(صحیح البخاری :١/١٨٤)
[ص: 383] بَاب مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ
1071 حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ [ص: 384] وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
سنن الترمذي.كتاب الجنائز
(ابوسلمہ، یحیی بن خلف، بشر بن مفضل، عبدالرحمن بن اسحاق، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کسی میت یا فرمایا تم میں سے کسی ایک کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلی آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں ایک کو منکر دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں تو اس شخص (یعنی نبی کریم ﷺ (کے بارے میں کیا کہتا ہے وہ شخص وہی جواب دیتا ہے جو دنیا میں کہتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر وہ فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے تو یہی جواب دے گا پھر اس کی قبر ستر گز وسیع کر دی جاتی ہے اور اسے منور کر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ سوجا۔ وہ کہتا ہے میں اپنے گھر والوں کے پاس جا کر ان کو بتادوں وہ کہتے ہیں دلہن کی طرح سوجا جسے اس کے محبوب ترین شخص کے علاوہ کوئی نہیں جگاتا۔ اللہ اسے قیامت کے دن اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر وہ منافق ہو تو یہ جواب دے گا میں لوگوں سے کچھ سنا کرتا تھا اور اسی طرح کہا کرتا تھا مجھے نہیں معلوم۔ فرشتے کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی جواب دے گا پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اسے دبوچ لے۔ وہ اسے اس طرح دبوچتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اسے اسی طرح عذاب دیا جاتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے اسی جگہ سے اٹھایا جائے گا اس باب میں حضرت علی، زید بن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب، انس، جابر، عائشہ، ابوسعید نبی کریم ﷺ سے عذاب قبر کے متعلق روایت کرتے ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابوہریرہ حسن غریب ہے۔)
عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن العبد إذا وضع في قبرہ وتولی عنہ أصحابہ أنہ لیسمع قرع نعالہم أتاہ ملکان، فیقعدانہ، فیقولان: ما کنت تقول في ہذہ الرجل۔ الخ۔ (مشکوۃ شریف ۱/ ۲۴، بخاري شریف، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۸۳، رقم: ۱۳۵۸، ف: ۱۳۷۴)
ویحتمل أن یراد بالإقعاد: الإیقاظ والتنبیہ، وإنما یسئلان عنہ بإعادۃ الروح۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب إثبات عذاب القبر ۱/ ۱۹۸، مکتبہ أشرفي)
ولا مانع في العقل من أن یعید اللہ تعالی الحیاۃ في جزء من الجسد، أو في الجمیع.فیثیبہ ویعذبہ ولا یمنع من ذلک کون المیت قد تفرقت أجزاء ہ کما شاہد في العادۃ، أو أکلتہ السباع والطیور . بشمول علم اللہ تعالیٰ وقدرتہ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر ۱/ ۱۹۷، مکتبہ أشرفي)
ربنا أمتنا اثنتین وأحییتنا اثنتین، فإن اللہ تعالیٰ ذکر الموتۃ مرتین، وہما لا تتحقان إلا أن یکون في القبر حیاۃ وموت حتی تکون أحد الموتین ما یتحصل عقیب الحیاۃ في الدنیا، والأخری ما یتحصل عقیب الحیاۃ التي في القبر۔ (عمدۃ القاري، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، مذاہب أہل السنۃ في أن عذاب القبر ثابت .، مکتہ دار احیاء التراث العربي بیروت ۸/ ۱۴۵-۱۴۶، زکریا ۶/ ۲۰۰)
أما أہل السنۃ والجماعۃ فلہم فیہ قولان: قیل: العذاب علی الروح فقط، وقیل: علی الروح والجسد معا، ومال إلی الأول الحافظ ابن القیم رحمہ اللہ، والأقرب عندي ہو الثاني۔ (فیض الباري، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ۲/ ۴۹۲)
قبر کا عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے ۔لیکن اس جسم کو نہیں جو دنیا میں تھا کہ یہ تو چند دنوں بعد سڑ گل کے خاک ہوجاتا ہے۔بلکہ برزخی جسم کے ساتھ عذاب کا تعلق ہوگا۔عذاب قبر چونکہ اہل سنت والجماعت اور ائمہ اربعہ کا متفقہ عقیدہ ہے۔ اس کے منکر کو کافر کہنے میں اہل سنت والجماعت احتیاط برتتے ہیں۔لیکن گمراہ ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ۔یہ مسئلہ قرآن واحادیث متواترہ صحیحہ سے ثابت ہے اس لئےاس پہ ایمان لانا ضروری ہے لیکن اس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں ۔
اور اس کی کھود کڑید میں پڑنا درست نہیں ہے ۔علامہ سیوطی شرح الصدور میں یہی تحریر فرماتے ہیں :
واختلف فیہ أنہ بالروح أو بالبدن أو بہما وہو الأصح منہما إلا أنا نؤمن بصحتہ، ولا نشتغل بکیفیتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۲۴، شرح الصدور للسیوطي ۲۴۷ دار التراث بیروت، ونووي علی المسلم ۲؍ ۳۸۶)
فی مرقاۃ المفاتیح (۳۰۳/۱): فان اﷲ تعالی یعلق روحہ الذی فارقہ بجزئہ الاصلی الباقی من اول عمرہ الی آخرہ المستمر علی حالہ حالتی النمو والذبول الذی تتعلق بہ الروح اولا فیحیا ویحیا بحیاتہ سائر اجزاء البدن ۔
وفی ''الروح ''لابن قیم (صـ۵۴): ان مذھب سلف الامۃ وائمتھا ان المیت یکون فی نعیم اوعذ اب وان ذلک یحصل لروحہ وبدنہ۔
وفی شرح الفقہ الاکبر (صـ۱۰۰): واعادۃ الروح الی العبد فی قبرہ حق۔
وفی شرحہ یقول الملا علی القاری: (الی العبد) ای الی جسدہ بجمیع اجزائہ او ببعضھا مجتمعۃ او متفرقۃ . وفی المسئلۃ خلا ف المعتزلۃ وبعض الرافضۃ۔
قال أہل السنة والجماعة عذاب القبر حق وسؤال منکر ونکیر وضغطة القبر حق اھ".(شامی:٦١٠١)
"وتجتمع فیہ الأرواح وتزار القبور ویأمن المیت فیہ من عذاب القبر ومن مات فیہ أو فی لیلتة أمن من فتنة القبر وعذابہ ولاتسجر فیہ جہنم۔ اھ" .(الدرعلی الرد:٦١٠١)
"ومن ینکر الشفاعة أو الرؤیة أو عذاب القبر أو الکرام الکاتبین وأمامن یفضل علیافحسب فہو من المبتدعة".(حلبی کبیری:٤٤٣)
عذاب قبر کیوں ہوتا ہے ؟
کبیرہ گناہوں کا ارتکاب اس کا سبب ہے۔جو شخص کسی سنگین کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو اور توبہ کئے بغیر مرجائے وہ قبر کے ہولناک عذاب میں مبتلا کیا جاتاہے۔خصوصاَ جو شخص کسی اعلانیہ گناہ کا بغیر کسی جھجک کے مرتکب ہو، احکام شرعیہ کی تحقیر کرے یا کمزوروں کے حقوق پامال کرے،اس کے بارے میں زیادہ اندیشہ ہے۔۔احادیث وروایات میں اس کے متعدد اسباب گنوائے گئے ہیں ۔سیوطی نے شرح الصدور میں اور حافظ ابن ابی الدنیا نے "القبور " میں ۔ابن القیم الجوزیہ نے " الروح " میں ۔بیہقی نے دلائل النبوہ میں عذاب قبر کے اسباب پہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔سب کا خلاصہ یہ ہے کہ :
چغل خوری۔پیشاب سے پرہیز نہ کرنا ۔کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پہ جھوٹ بولنا ۔جھوٹی افواہیں پہیلانا
زنا کرنا۔سود کھانا ۔حلال چھوڑ کر حرام کمانا اور کھانا ۔بدکار عورتیں۔چغل خوری وعیب جوئی۔فرض نماز چھوڑنا ۔زکات نہ دینا۔غیر عورتوں سے آشنائی کرنا ۔لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا۔فتنہ انگیز خطبہ دینا۔بہتان لگانا وغیرہ وغیرہ منجملہ اسباب عذاب قبر ہیں۔
عذاب قبر سے پناہ مانگی جائے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔
(بخاری،بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،حدیث نمبر:۱۲۸۸)
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے اور یوں کہتے : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ۔
(اے اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور جہنم کے عذاب سے اور زندگی وموت کے فتنے سے اور دجال کے فتنے سے۔)
عذاب قبر سے بچائو
ً سورۂ مُلک ایک دفعہ سوتے وقت پڑھتے رہنا عذابِ قبر اور سوالِ قبر سے نجات دِلاتا ہے یہ سورت مانع بن جاتی ہے عذاب سے۔ لہذا یہ سورت ایک دفعہ روزانہ سونے سے پہلے پڑھ لینا چاہیے ۔
عذاب قبر پوشیدہ کیوں رکھا گیا ؟
احادیث میں حضور اقدس ﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ قبر میں میت کو جو عذاب ہوتا ہے اس کی چیخ وپکار کی آواز انسان اور جنات کے علاوہ باقی تمام مخلوق سنتی ہے :
1308 حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي [ص: 463] قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَةُ وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ
صحيح البخاري۔
اور انسان اور جنات کو اس لیے آواز سنائی نہیں دیتی کہ اگر ان کو بھی آواز سنائی دینے لگے تو سارے کے سارے راہ راست پر آجائیں۔ جتنے کافر ہیں وہ سب ایمان لے آئیں اور جو مسلمان بے دین اور فسق وفجور میں مبتلا ہیں وہ سب اپنی اصلاح کرکے نیک اور پارسابن جائیں، تو پھر سارا امتحان ختم ہوجائے اور مقصد فوت ہوجائے۔ کیوںکہ یہ دنیا دارالعمل ہے، دار الجزاء نہیں ہے۔ یہاں ایمان بالغیب معتبر ہے کہ نہ کچھ دیکھا ہے اور نہ عقل میں کچھ آتا ہے، مگر حضور اقدس ﷺ نے جو فرمادیا اس پر ہمارا ایمان ہے۔ دیکھنے سے ہمیں اتنا یقین نہ آتا جس طرح بِن دیکھے حضور ﷺ کے فرمان پر ہمیںیقین ہے۔ بس اسی ایمان کی قیمت ہے اور اسی پر اجر وثواب ہے۔ (ٹی وی اور عذاب قبر )
عذاب قبر مخفی رکھنے کی ایک وجہ خود زبان رسالت مآب سے بیان ہوئی :
2867 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ وَأَخْبَرَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَلَمْ أَشْهَدْهُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ حَدَّثَنِيهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ [ص: 2200] وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ فَقَالَ مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ
صحيح مسلم
2868 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
صحیح مسلم۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں بنو نجار کے کسی باغ میں تشریف لے گئے، وہاں کسی قبر سے آواز سنائی دی ، نبی ﷺ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا کہ اس قبر میں مردے کو کب دفن کیا گیا تھا لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ شخص زمانہ جاہلیت میں دفن ہوا تھا، نبی ﷺ کو اس پر تعجب ہوا اور فرمایا اگر تم لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ نہ دیتے تو میں اللہ سے یہ دعاء کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذابِ قبر کی آواز سنا دے۔
نزع کی آسانی کا عمل :
آسانی سے روح قبض ہونے کے لئے روزانہ اس دعا کا ورد کیا جائے :
"اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَكَرَاتِ الْمَوْت "
بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ عِنْدَ الْمَوْتِ
978 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَرْجِسَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَاءٌ وَهُوَ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ۔سنن الترمذي.
واللہ اعلم بالصواب

Thursday, January 10, 2019

Exam vedio 2019

No comments:

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ محترم حضرات آج الحمد للہ دارلھدارُ کنزر بارہمولہ  کا سالانہ  امتحان مکمل ہو  ایک سلسلے میں ہم ایک ویڈیو بنائی ہیں ۔  آپ لوگ اس کو اس لنک پر دیکھ سکتے ہو 
https://youtu.be/jx2zmpJsOJ0


Featured Post

صدارتي خطاب

 

Search This Blog

 
back to top