Tuesday, July 31, 2018

بچے کی تربیت کیسے کریں

No comments:
کتاب کا نام
بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

مصنف
ڈاکٹر ام کلثوم

ناشر
دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد


تبصرہ

دین اسلام میں بچوں کی تربیت اور نگہداشت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور نبی کریمﷺ نے بچوں کو جنت کے پھول قرار دیا۔ بچے پر اثر انداز ہونے والے تین عوامل ہیں: گھر، مدرسہ اور معاشرہ۔ بچے کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات اس کے گھر کے ماحول کے ہوتے ہیں ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے اس لیے ماں کی بچے کی تربیت میں خاصا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ زیر نظرکتاب میں مصنفہ ڈاکٹر ام کلثوم نے تربیت اولاد میں والدین کے کردار کواجاگر کیا ہے۔ انہوں نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ بچوں کی تربیت کے ذیل میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو بہت خوبصورت انداز میں جمع کر دیا ہے۔ (ع۔م)
اس کتاب بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
آپکا دینی بھائی عبدالمومن سلفی 

Friday, July 13, 2018

نبی کے ماننے والے کمزور اور غریب لوگ تھے

No comments:
تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ
اہل جاہلیت کسی چیز کو محض اس لئے باطل سمجھتے تھے کہ اس پر چلنے والے کمزور غریب لوگ ہیں جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا:
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ٭ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ ٭ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ٭ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ ٭ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ ٭فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ ٭قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ ٭ إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَى رَبِّي لَوْ تَشْعُرُونَ ٭وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِينَ ٭إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [26-الشعراء:105]
”قوم نوح نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا، جب ان سے ان کے بھائی نوح نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں، میں تمھارا امانت دار پیغمبروں ہوں، تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ اور میں تم سے اس کا کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ تو رب العلمین پر ہے۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرے کہنے پر چلو وہ بولے : کیا ہم تم کو مان لیں اور تمہارے پیرو تو رذیل لوگ ہیں۔ نوح نے کہا: کہ مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں ان کا حساب میرے پروردگار کے ذمے ہے کاش تم سمجھو اور میں مومنوں کو نکال دینے والا نہیں ہوں۔ میں تو کھول کھول کر نصیحت کرنے والا ہوں۔ “
غور کیجئے حضرت نوح کی قوم نے محض اس لئے اپنے نبی کی اتباع سے انکار کر دیا کہ نبی کے ماننے والے کمزور اور غریب لوگ تھے۔ اس لیے ان کا مطمع نظر صرف دنیا تھا اگر ان کا مقصود آخرت ہوتی تو جہاں کہیں حق پاتے اتباع کرتے لیکن محض اپنی جاہلیت کی بنا پر حق سے منہ پھیر کر اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ اس کے برعکس ہرقل کو دیکھو کتنی عظیم عقل و بصیرت کا مالک تھا پھر بھی ضعفاء کی پیروی حق کو حق کی دلیل سمجھتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اس نے ابوسفیان سے پوچھا کہ آپ کے پیروکار اشراف ہیں یا ضعفاء، کہا ضعفاء ہرقل نے کہا ”ضعفاء ہی تمام انبیاء کے پیروکار رہے ہیں۔ “
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے متعلق سورۃ ہود میں بھی یہی قول مذکور ہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ٭ أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ ٭ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ [ 11-هود:25]
”اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے ان سے کہا، میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے اور پیغام پہچانے آیا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہاری نسبت عذاب الیم کا خوف ہے۔ تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے، کہنے لگے کہ ہم تم کو اپنے ہی جیسا ایک آدمی دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو وہی لوگ ہیں جو ہم میں ادنیٰ درجہ کے ہیں اور وہ بھی رائے ظاہر سے اور ہم تم میں اپنے اوپر کسی طرح کی فضیلت نہیں دیتے بلکہ تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔“

Tuesday, July 3, 2018

اسلام میں خواتین کا مقام

No comments:
*دارلُھدیٰ کنزر بارہمولہ کشمیر*
کی طرف سے ہر طالبہ کو اس موضوع پر تیاری کرنی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام میں عورت کا مقام
۰
الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
اسلام میں مسلمان عورت کا بلند مقام،اور ہر مسلمان کی زندگی میں مؤثر کردار ہے۔صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مدرسہ ہے،جب وہ کتاب اللہ اور سنت رسول پر عمل پیرا ہو۔کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول کو تھام لینا ہی ہر جہالت وگمراہی سے دوری کا سبب ہے۔قوموں کی گمراہی کا سب سے بڑا سبب اللہ تعالیٰ کی شریعت سے دوری ہے جس کو أنبیاء کرام قوموں کی فلاح وبہبود کے لئے لے کر آئے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ وسنتی))
’’میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑ کرجا رہا ہوں ۔جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ایک ہے اللہ کی کتاب ،اور میری سنت۔‘‘
قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اور مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔عورت خواہ ماں ہو یا بہن ہو،بیوی ہو یا بیٹی ہو،اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
ماں کا شکر ادا کرنا ،اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے،کیونکہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا،جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسا ن ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَوَصَّیْنَا اْلِانْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَفِصٰلُہٗ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ))[لقمان:۱۴]
’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھٹائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر،(تم سب کو)میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَوَصَّیْنَا اْلِانْسَانَ بِوَالِدَیْہ اِحْسَانًاحَمَلَتْہُ أُمّہٗ کُرْھاً وَوَضَعَتْہُ کُرْھًا وَحَمْلُہٗ وَفِصَالُہٗ ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا))[الأحقاف:۱۵]
’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔اس کے حمل اٹھانے کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔‘‘
ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا!
((من أحق الناس بحسن صحابتی ؟قال أمک قال ثم من؟قال أمک قال ثم من؟قال أمک قال ثم من؟قال ابوک))
’’یا رسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایاتیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے تیرا باپ۔‘‘اس حدیث کا تقاضا ہے کہ ماں کے ساتھ باپ کی نسبت تین گنا زیادہ حسن سلوک کیا جائے،کیونکہ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ ماں کا نام لیا اور آخر میں ایک مرتبہ باپ کا ۔
بیوی کا مقام اور دلوںکو سکون دینے میں اس کے کردار کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((وَمِنْ آیٰاتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً))[الروم:۲۱]
’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے آرام پاؤ ۔اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کر دی۔‘‘حافظ ابن کثیررحمہ اللہ ا پنی تفسیرابن کثیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ مَوَدَّۃً ‘‘ سے مراد محبت ا و ر ’’ ر َحْمَۃً ‘‘ سے مراد نرمی اور ہمدردی ہے۔کیونکہ آدمی عورت کو محبت سے چھوتا ہے یا نرمی سے چھوتا ہے تاکہ اس کے لئے اس عورت میں سے اولاد ہو۔
ہم رسول اللہ ﷺ کو دلی سکون پہنچانے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنھاکے کردار کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب پہلی وحی لیکر حضرت جبرئیل ںغار حراء میں اترے اور نبی کریم ﷺ کو زور سے دبایا۔تو نبی کریم ﷺ حالت خوف میں گھر تشریف لائے اور ڈر کی وجہ سے ان کے کندھے کانپ رہے تھے،اور فرمایا:
((دثرونی دثرونی لقد خشیت علی نفسی))
’’مجھے چادر اوڑھا دو!مجھے چادر اوڑھا دو!مجھے میری جان کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے۔‘‘تو حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنھانے تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
((أبشر فواللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ أبدا،انک لتصل الرحم ،وتصدق الحدیث،وتحمل الکل ،وتکسب المعدوم،وتقری الضیف،وتعین علی نوائب الحق))
’’خوش ہو جائیے!اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا،بے شک آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں ،بے سہارا کو سہارا دیتے ہیں،کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں،مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیںاور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ہم حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھاکے مؤثر کردار کو نہیں بھول سکتے کہ بڑے بڑے صحابہ کرام ان أحادیث نقل کرتے ہیں۔خصوصا عورتوں سے متعلقہ مسائل انہی سے زیادہ مروی ہیں۔
زمانہ قریب میں ہم امام محمد بن سعود رحمہ اللہ کی بیوی کے مؤثر کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ بیوی کی نصیحت پر ہی انہوں نے امام محمد بن عبد الوھا ب رحمہ اللہ کی دعوت کو قبول کیا اور ان کی مدد کی۔اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میری (شیخ ابن باز رحمہ اللہ)تعلیم وتربیت میں بھی میری والدہ محترمہ کا بہت بڑا کردار ہے ۔جنہوں نے ہر مشکل میں میری راہنمائی کی اور تعلیم کے سلسلہ میں میری حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے اور ان کی مغفرت فرمائے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو گھر محبت ،الفت،انس وپیار اور اسلامی تربیت میں زندگی گزار رہا ہو،تو اللہ کے فضل وکرم سے اس گھر میں برکات ہی برکات ہوں گی۔تجارت میں یا طلب علم میں یا زراعت میں ،اللہ تعالیٰ ہر کام میں برکت ڈال دے گا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک بنائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے اور ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔آمین

Featured Post

صدارتي خطاب

 

Search This Blog

 
back to top