Saturday, December 22, 2018

اولاد کی تربیت کیسے کریں

No comments:

اولاد خدائے بزرگ و بر ترکاعطا کردہ وہ معززاور عظیم تحفہ ہے جس کے مقام و مرتبہ کی بلندی اچھے کارنامے صرف والدین اعزہ واقارب ہی نہیں بلکہ وطن کےتمام لوگوں کے لیےقابل فخربنتے ہیں نیز آخرت میں نجات کا باعث اور دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک دل کی راحت بنیں گے؛
بالآخر اولاد دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار ہو کر اپنے والدین اعزہ واقارب کو جہنم کی دہکتی ہوئ آگ سے نکال کر جنت کے خوشنما مناظر میں آسائش و آرام راحت و سکون والی دائمی زندگی عطا کرنے کاذریعہ بنیں گے ؛
لیکن یہ مقام ومرتبہ اسوقت حاصل ہوگا جبکہ والدین نے انکی دینی تربیت کرنے ادب سکھلانے احکام شرعیہ کو پورا کرنے دینی مزاج بنانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونئہ حیات بنانے میں پوری پوری دلچسپی لی ہو؛ 
جیساکہ قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے (لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمھارے لیے نمونہ ہے؛ 
خدا نخوستہ اگر ان ساری چیزوں سے غفلت برتی گئ تو یہی ذلت خسارہ نقصان بدنامی اور رنج و غم وافسوس کا باعث ہو کر دل کو غم و پریشانی سے بھر کر دونوں جہاں کی رسوائ کا باعث ہو گی جو کہ ذلت کے دائمی گڈھے کے اندر گرا دے گی پھر اس سے نکلنا بہت مشکل ہو جا ئےگا؛ 
اسی لیے (طلب العلم فريضة علي كل مسلم ومسلمة) 
ہر مسلمان مر دو عورت پر اتنا علم دین کا حاصل کرنا ضروری اور فرض عین کا درجہ رکھتا ہے کہ جس سے حلال و حرام کی تمیز اور پہچان ہو جائے؛ 
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو مدارس میں حصول تعلیم کے لیے داخل کرادیں اسکے ساتھ ساتھ بری صحبت لغویات اور سوء ادب سے بچا کر اچھی اچھی کام کی باتیں عمدہ نصیحتیں کرتے رہیں اور غلط باتوں پر تنبیہ بھی کریں معاشرہ میں رہن سہن کے آداب اور عمدہ اخلاق اوصاف حمیدہ کی تعلیم دیتے رہیں اپنی پوری توجہ انکی طرف مبذول رکھ کر ہمہ تن انکے احوال و کوائف سے باخبر رہیں اچھے کاموں پر حوصلہ افزائ بھی کریں تاکہ اولاد مزید آگے بڑھنے کی کو شش کرے؛ 
لکن افسوس صد افسوس کہ والدین اپنی اولاد کی انکی دنیوی تمناؤوں کو پورا کرنے میں تو دلچسپی لیتے ہیں، لیکن دینی تربیت کرنے سے کوسوں دور رہتے ہیں؛ بچپن سے ہی موبائل میں گیم کھیلنے کا ایسا چسکا لگا دیتے ہیں وہ ایک لمحہ کے لیے اسکے بغیر نہیں رہ پاتا پھر بتدریج کارٹون دیکھا نے دیگر ویڈیوز میں مشغول کر کے چھوڑدیتے ہیں کو ئ ٹوکے یا نکیر کرے تو کہتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے بعد میں سنبھل جائے گا آگے چل کر یہی بچہ موبائل کا عاشق و دلدادہ ہو جاتا ہے اور واٹساپ فیس بک دیگر انٹرنیٹ کے سوفٹروں کا غلط استعمال کر کے ایسا بگڑ کر دین سے دور ہوتا ہے کہ صرف موبائل انٹرنیٹ کا ہی ہو کر رہ جاتا ہےاور اسکی خاطر ہر مشقت برداشت کر لیتا ہے لیکن اپنی عادت سے باز نہیں آتا جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے بچہ کسی کی بات کی پرواہ کیے بغیر اپنی من مانی زندگی گزارتا ہے اور ماں باپ اماموں یا تعویذ گنڈا کرنے والوں کا چکر کاٹتے ہیں اور چیک کراتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کو کسی نے کچھ کردیا ہے ، حالانکہ یہ تو انکی بے توجھی صحیح تربیت نہ کرنے کا نتیجہ ہے، دوسری طرف افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ھیکہ معاشرہ کے افراد اولاد کی تربیت پر کچھ حد تک کسی نہ کسی درجے میں دھیا ن دیتے ہیں لیکن بچیوں کی تعلیم اور کما حقہ تربیت کی طرف پوری طرح توجہ نہیں دیتے ہیں؛ 
حالانکہ اچھی تعلیم و تربیت سے پو رے طور پر نا آشنا نا بلد نا واقف رکھنا یہ مستقبل میں اور بھی جان لیوا اور خطرناک ثابت ہوگا؛ 
بچیوں کی دینی تعلیم سے انحراف کر کے صرف دنیوی تعلیم پر اکتفا کیا جاتا ہے جو اور بھی لمحئہ فکریہ اور کربناک صورتحال پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے 
یہی وجہ ھیکہ اگر آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ جتنے بھی بڑے بڑے لوگ گذرے ہیں سب کی مائیں دینی ذوق رکھنے والی اچھے اخلاق عمدہ صفات کی حامل اچھی تربیت کرنے والی تھیں انھوں نے اپنے بچوں کی دینی تربیت کر کے دینی ذوق انکے اندر پیدا کردیا ایسا دینی جذبہ تھا کہ محمد بن قاسم نے ابھی تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اسلام کے لیے لڑنے والے جانباز سپاہی بہادر شہسوار بنے اور صلاح الدین ایوبی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مولنا قاسم نانوتوی مولنا حسین احمد مدنی مولنا محمود الحسن گنگوہی مولانا بایزید بسطامی امام رازی امام غزالی انکے علاوہ دیگر کتنے بڑے بڑے محدثین مفسرین مشائخ پیدا ہوئے سب کو انکی ماں نے ہی جنا تھا نا البتہ اتنا فرق ہیکہ انکی مائیں انتہائ نیک دیندار متقی پر ہیزگار تھی انکو اس مقام تک پہنچانے میں ماں کا بھی تو بڑا کردار تھا؛ 
چونکہ بچوں کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے ماں کے اثرات بچوں میں سب سے پہلے مرتب ھوں گے اگر ماں تربیت یافتہ عمدہ صفات کی حامل اور تقوی کے اعلی معیار پر شریعت پر عمل کرنے والی ہو تو بچوں میں بھی یہی اثرات مرتب ھونگے اور بچے بھی نیک صالح متقی اور پرہیز گار بنیں گے اگر اسکے بر عکس صورتحال پائ گئ یعنی ماں کا دینداری سے کوئ واسطہ ہی نہ ہو غیبت کرنے والی لعن طعن کرنے والی ناشکری ناقدری کرنے والی ہوگی تو ظاہر سی بات ہے بچے بھی اسی نھج اور اسی طریقے پر چلیں گے اور اسکے اندر بھی بتدریج وہ تمام نقائص و عیوب پیدا ہو جائیں گے جو مستقبل میں مضرت کا سبب بن کر نقصان پہنچائیں گے پھر کف افسوس ملنے سے کو ئ فائدہ نہیں ہوگا صرف حسرت وتمنا بن کر رہ جائے گی دنیوی فائدہ ہوگا نہ دینی فائدہ ؛ 
اسی لیے ضرورت ہے کہ کم از کم بھشتی زیور اچھی تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف کرانا اتنی تعلیم دینا تو ازحد ضروری ہے تا کہ مسائل سے باخبر ہو کر زندگی کے اگلے مرحل کو طےکرے ورنہ بسا اوقات علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسے کلمات زبان سے غیر شعوری طور پر نکل جاتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے نکالنے کا سبب بنتے ہیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے اور اگلی زندگی میاں بیوی کی غیر شرعی تعلقات سے گزرتی ہے ان ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہو ئے اولاد کو علم و ادب سے آراستہ کرانا نہایت اہم اور ضروری ہے ورنہ قیامت کے دن والدین سے پوچھ ہو گی تو اسوقت کیا جواب دیں گے؟ ؛ 
اگر والدین نے اپنے اولاد کی اچھی تر بیت کی تو یہ آپ کے لیے صدقئہ جاریہ بھی بنے گی اور قیامت کے باز پرس سے بھی بچ جائیں گے جیسا کہ حدیث کا مفہوم نیچے مذکو ہے کہ آپ سے بھی باز پرس ہوگی؛ 
نیز والدین اگر علوم شرعیہ سے ناواقف ہوِں تو انہیں چاہیے کہ وہ علماء سے ہر قدم پر ہر موڑ پر مسائل معلوم کر کے زندگی گزاریں علماء کی قدر کریں ان سے مشورہ لیتے رہے صلحاء سے دعائیں لیتے رہیں 'علماء صلحاء بزرگوں کی تحقیر نہ کریں؛ 
اور حدیث کا مفھوم ھیکہ ہر حاکم سے انکے رعایا ہر ذمہ داروں کو انکے ماتحتوں والدین کو انکی اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا اسلیے والدین سے مؤدبانہ التماس وگزارش ھیکہ وہ اپنی اولاد کی کما حقہ اچھی سے اچھی تعلیم دے کر بہترین انداز میں تر بیت کر یں اور عند اللہ ماجور ہوں
No comments:

O Allah, I beseech You for sustenance – abundant, good and lawful-from the “sustenance” You own.
ALLAAHUMMA INNEE AS-ALUKA RIZQAN WAASI-AN T'AYYIBBAN MIN RIZQIKA

Featured Post

صدارتي خطاب

 

Search This Blog

 
back to top