Saturday, December 22, 2018

اولاد کی تربیت کیسے کریں

No comments:

اولاد خدائے بزرگ و بر ترکاعطا کردہ وہ معززاور عظیم تحفہ ہے جس کے مقام و مرتبہ کی بلندی اچھے کارنامے صرف والدین اعزہ واقارب ہی نہیں بلکہ وطن کےتمام لوگوں کے لیےقابل فخربنتے ہیں نیز آخرت میں نجات کا باعث اور دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک دل کی راحت بنیں گے؛
بالآخر اولاد دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار ہو کر اپنے والدین اعزہ واقارب کو جہنم کی دہکتی ہوئ آگ سے نکال کر جنت کے خوشنما مناظر میں آسائش و آرام راحت و سکون والی دائمی زندگی عطا کرنے کاذریعہ بنیں گے ؛
لیکن یہ مقام ومرتبہ اسوقت حاصل ہوگا جبکہ والدین نے انکی دینی تربیت کرنے ادب سکھلانے احکام شرعیہ کو پورا کرنے دینی مزاج بنانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونئہ حیات بنانے میں پوری پوری دلچسپی لی ہو؛ 
جیساکہ قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے (لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمھارے لیے نمونہ ہے؛ 
خدا نخوستہ اگر ان ساری چیزوں سے غفلت برتی گئ تو یہی ذلت خسارہ نقصان بدنامی اور رنج و غم وافسوس کا باعث ہو کر دل کو غم و پریشانی سے بھر کر دونوں جہاں کی رسوائ کا باعث ہو گی جو کہ ذلت کے دائمی گڈھے کے اندر گرا دے گی پھر اس سے نکلنا بہت مشکل ہو جا ئےگا؛ 
اسی لیے (طلب العلم فريضة علي كل مسلم ومسلمة) 
ہر مسلمان مر دو عورت پر اتنا علم دین کا حاصل کرنا ضروری اور فرض عین کا درجہ رکھتا ہے کہ جس سے حلال و حرام کی تمیز اور پہچان ہو جائے؛ 
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو مدارس میں حصول تعلیم کے لیے داخل کرادیں اسکے ساتھ ساتھ بری صحبت لغویات اور سوء ادب سے بچا کر اچھی اچھی کام کی باتیں عمدہ نصیحتیں کرتے رہیں اور غلط باتوں پر تنبیہ بھی کریں معاشرہ میں رہن سہن کے آداب اور عمدہ اخلاق اوصاف حمیدہ کی تعلیم دیتے رہیں اپنی پوری توجہ انکی طرف مبذول رکھ کر ہمہ تن انکے احوال و کوائف سے باخبر رہیں اچھے کاموں پر حوصلہ افزائ بھی کریں تاکہ اولاد مزید آگے بڑھنے کی کو شش کرے؛ 
لکن افسوس صد افسوس کہ والدین اپنی اولاد کی انکی دنیوی تمناؤوں کو پورا کرنے میں تو دلچسپی لیتے ہیں، لیکن دینی تربیت کرنے سے کوسوں دور رہتے ہیں؛ بچپن سے ہی موبائل میں گیم کھیلنے کا ایسا چسکا لگا دیتے ہیں وہ ایک لمحہ کے لیے اسکے بغیر نہیں رہ پاتا پھر بتدریج کارٹون دیکھا نے دیگر ویڈیوز میں مشغول کر کے چھوڑدیتے ہیں کو ئ ٹوکے یا نکیر کرے تو کہتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے بعد میں سنبھل جائے گا آگے چل کر یہی بچہ موبائل کا عاشق و دلدادہ ہو جاتا ہے اور واٹساپ فیس بک دیگر انٹرنیٹ کے سوفٹروں کا غلط استعمال کر کے ایسا بگڑ کر دین سے دور ہوتا ہے کہ صرف موبائل انٹرنیٹ کا ہی ہو کر رہ جاتا ہےاور اسکی خاطر ہر مشقت برداشت کر لیتا ہے لیکن اپنی عادت سے باز نہیں آتا جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے بچہ کسی کی بات کی پرواہ کیے بغیر اپنی من مانی زندگی گزارتا ہے اور ماں باپ اماموں یا تعویذ گنڈا کرنے والوں کا چکر کاٹتے ہیں اور چیک کراتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کو کسی نے کچھ کردیا ہے ، حالانکہ یہ تو انکی بے توجھی صحیح تربیت نہ کرنے کا نتیجہ ہے، دوسری طرف افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ھیکہ معاشرہ کے افراد اولاد کی تربیت پر کچھ حد تک کسی نہ کسی درجے میں دھیا ن دیتے ہیں لیکن بچیوں کی تعلیم اور کما حقہ تربیت کی طرف پوری طرح توجہ نہیں دیتے ہیں؛ 
حالانکہ اچھی تعلیم و تربیت سے پو رے طور پر نا آشنا نا بلد نا واقف رکھنا یہ مستقبل میں اور بھی جان لیوا اور خطرناک ثابت ہوگا؛ 
بچیوں کی دینی تعلیم سے انحراف کر کے صرف دنیوی تعلیم پر اکتفا کیا جاتا ہے جو اور بھی لمحئہ فکریہ اور کربناک صورتحال پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے 
یہی وجہ ھیکہ اگر آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ جتنے بھی بڑے بڑے لوگ گذرے ہیں سب کی مائیں دینی ذوق رکھنے والی اچھے اخلاق عمدہ صفات کی حامل اچھی تربیت کرنے والی تھیں انھوں نے اپنے بچوں کی دینی تربیت کر کے دینی ذوق انکے اندر پیدا کردیا ایسا دینی جذبہ تھا کہ محمد بن قاسم نے ابھی تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اسلام کے لیے لڑنے والے جانباز سپاہی بہادر شہسوار بنے اور صلاح الدین ایوبی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مولنا قاسم نانوتوی مولنا حسین احمد مدنی مولنا محمود الحسن گنگوہی مولانا بایزید بسطامی امام رازی امام غزالی انکے علاوہ دیگر کتنے بڑے بڑے محدثین مفسرین مشائخ پیدا ہوئے سب کو انکی ماں نے ہی جنا تھا نا البتہ اتنا فرق ہیکہ انکی مائیں انتہائ نیک دیندار متقی پر ہیزگار تھی انکو اس مقام تک پہنچانے میں ماں کا بھی تو بڑا کردار تھا؛ 
چونکہ بچوں کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے ماں کے اثرات بچوں میں سب سے پہلے مرتب ھوں گے اگر ماں تربیت یافتہ عمدہ صفات کی حامل اور تقوی کے اعلی معیار پر شریعت پر عمل کرنے والی ہو تو بچوں میں بھی یہی اثرات مرتب ھونگے اور بچے بھی نیک صالح متقی اور پرہیز گار بنیں گے اگر اسکے بر عکس صورتحال پائ گئ یعنی ماں کا دینداری سے کوئ واسطہ ہی نہ ہو غیبت کرنے والی لعن طعن کرنے والی ناشکری ناقدری کرنے والی ہوگی تو ظاہر سی بات ہے بچے بھی اسی نھج اور اسی طریقے پر چلیں گے اور اسکے اندر بھی بتدریج وہ تمام نقائص و عیوب پیدا ہو جائیں گے جو مستقبل میں مضرت کا سبب بن کر نقصان پہنچائیں گے پھر کف افسوس ملنے سے کو ئ فائدہ نہیں ہوگا صرف حسرت وتمنا بن کر رہ جائے گی دنیوی فائدہ ہوگا نہ دینی فائدہ ؛ 
اسی لیے ضرورت ہے کہ کم از کم بھشتی زیور اچھی تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف کرانا اتنی تعلیم دینا تو ازحد ضروری ہے تا کہ مسائل سے باخبر ہو کر زندگی کے اگلے مرحل کو طےکرے ورنہ بسا اوقات علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسے کلمات زبان سے غیر شعوری طور پر نکل جاتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے نکالنے کا سبب بنتے ہیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے اور اگلی زندگی میاں بیوی کی غیر شرعی تعلقات سے گزرتی ہے ان ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہو ئے اولاد کو علم و ادب سے آراستہ کرانا نہایت اہم اور ضروری ہے ورنہ قیامت کے دن والدین سے پوچھ ہو گی تو اسوقت کیا جواب دیں گے؟ ؛ 
اگر والدین نے اپنے اولاد کی اچھی تر بیت کی تو یہ آپ کے لیے صدقئہ جاریہ بھی بنے گی اور قیامت کے باز پرس سے بھی بچ جائیں گے جیسا کہ حدیث کا مفہوم نیچے مذکو ہے کہ آپ سے بھی باز پرس ہوگی؛ 
نیز والدین اگر علوم شرعیہ سے ناواقف ہوِں تو انہیں چاہیے کہ وہ علماء سے ہر قدم پر ہر موڑ پر مسائل معلوم کر کے زندگی گزاریں علماء کی قدر کریں ان سے مشورہ لیتے رہے صلحاء سے دعائیں لیتے رہیں 'علماء صلحاء بزرگوں کی تحقیر نہ کریں؛ 
اور حدیث کا مفھوم ھیکہ ہر حاکم سے انکے رعایا ہر ذمہ داروں کو انکے ماتحتوں والدین کو انکی اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا اسلیے والدین سے مؤدبانہ التماس وگزارش ھیکہ وہ اپنی اولاد کی کما حقہ اچھی سے اچھی تعلیم دے کر بہترین انداز میں تر بیت کر یں اور عند اللہ ماجور ہوں
No comments:

O Allah, I beseech You for sustenance – abundant, good and lawful-from the “sustenance” You own.
ALLAAHUMMA INNEE AS-ALUKA RIZQAN WAASI-AN T'AYYIBBAN MIN RIZQIKA

Saturday, November 17, 2018

استاد کے خاص پیغام

No comments:
تربیت کا فقدان:

معلم پر یہ اوّلین فریضہ ہے کہ وہ آنے والے نئے طالب علم کی تربیت کرے اور اس کا یہ ذہن بنا دے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک آپ متقی نہ بنیں گے کسی امام نے کہا :'' ما فقہ قوم لم یبلغوا لتقی '' وہ قوم کبھی علم حاصل نہیں کر سکتی جو متقی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :''اتقو اللہ ویعلمکم اللہ '' تم اللہ سے ڈر جاؤ وہ تمہیں علم سکھلا دے گا۔پھر یہ بار بار یاد دہانی کرائی جائے ہفتے میں ایک دن ضررور طلباء سے تربیتی نشست کی جائے دل کی اصلاح پر زور دیا جائے کہ اگر آپ کے دل میں برے پروگرام ہوئے تو آپ علم سے محروم ہو جائیں گے ۔
حصول علم کے لئے دل کی صفائی شرط ہے ۔ معلم جب بھی شاگرد میں کوئی عملی کوتاہی محسوس کرے تو ایک باپ کی طرح خیر خواہی کا جذبہ لے کر اس بچے کو حکیمانہ انداز میں تنہائی میں سمجھائے اگر اس کے سامنے استاد کورونا بھی پڑے تاکہ وہ طالب علم سمجھے کہ میرا استاد میرا کتنا خیر خواہ ہے؟
تذکیہ نفس پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرنے کا حکم دے مثلاََ فلاح کی راہیں ، آفات ِ نظر اور ان کا علاج از شیخنا ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ ، الفوائد از شیخنا امین اللہ پشاوری حفطہ اللہ ، ۔
الذہد لامام احمد ؒ وغیرہ۔)
محنت نہ کرنا :

ایک طالب علم کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ '' من جدّ و جد'' جس نے کوشش کی اس نے پا لیا ۔'' لا یستطاع العلم براحۃ الجسم ''جسم کو سکون پہنچا کر علم کا حصول ناممکن ہے۔
بد محنت طالب علم کو یہ نکتہ ذہن میں رکھناچاہئے کہ قرآن و حدیث کا علم تمام علوم سے افضل علم ہے یہ علم منزل من اللہ ہے ، اسی کے ذریعے لو گوں کی اصلاح ممکن ہے۔علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے ایک عالم دین اپنے ایک ذہن کی فکر و کوشش کے ذریعے پوری کا ئنات کو روشن کر سکتا ہے ۔ شرک ، کفر عام ہورہا ہے اگر محنت سے علم کو حاصل نہیں کریں گے تو شرک و کفر کے خلاف کون اپنی آواز بلند کرے گا ۔ 
امام اسحاق بن یوسف بن مر داس واسطی بیس سال تک کتابوں پر اس طرح جھکے رہے کہ سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٤٨)
بد محنت طالب علم کے لئے یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہر فرد پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں اگر وہ ساری سہولتیں استعمال کرنے کے باوجود علم کو حاصل نہ کر سکا تو پھر والدین کے ساتھ ، انتظامیہ کے ساتھ ، تعاون کرنے والوں کے ساتھ ظلم کر رہا ہے کل قیامت کو کیا جواب دے گا۔

شاید یہ بات طالب علم جلد سمجھ لے کہ جتنا آپ کے پاس علم ہوگا اتنا ہی آپ دین کا کا م کر سکیں گے ۔ اگر بہت زیادہ محنت کر کے زیادہ علم حاصل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بھی آپ سے بہت زیادہ دین کا کام لے گا ۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
آج جو بو گے کل کو وہی کاٹو گے۔
استاذہ کی خدمت سے جی چرانا :

یہ بھی ناکامی کی ایک وجہ ہے ہمارا یہ تجزیہ ہے کہ وہ طالب علم جو تعلیم میں محنت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کی خدمت کرتا رہتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عزت سے ہمکنار کرتے ہیں اور اسی سے دین کا کام لیتے ہیں ۔
اے طالب علم ! اسا تذہ کی خدمت کامیابی کا پہلا زینہ ہے جس کو تو بھول چکا ہے ۔
ہم آپ کے لئے محدثین کے چند واقعات پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اساتذہ کی کتنی خدمت کیا کرتے تھے ، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
اساتذہ کی خدمت کے واقعات :

١۔ مولا نا عبد الرؤ ف جھنڈانگری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:'[ حضرت عبد اللہ بن عباس کے فضل و کمال اور وسعت علم کی کچھ انتہا نہیں مگر طلب علم اور مسائل اور فرائض کے حصول کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں جاتے اور جب زید بن ثابت کبھی سوار ہو کر باہر نکلتے تو آپ انکی سواری کا رکاب تھامتے ، جب حضرت زید ان کو اس ادا سے منع کرتے تو آپ فرماتے : '' ھکذا امر نا ان نفعل بعلماء نا '' کہ اسی طرح ہمیں علماء کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے ۔(مرأۃ الجنان جلد اول : ١٢٣)
٢۔ حضرت ابو العالیہ تابعین کرام میں تفسیر قرآن کے سب سے بڑے عالم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انکی بے حد تعظیم و تکریم فرماتے۔جب قریش کے عام لوگ زمین کے فرش پر ہوتے تو ان کو اپنے ساتھ تخت و مسند پر بٹھا تے اور فرماتے :'' ھکذا العلم یزید الشریف شرفاََ و یجلس الملوک علی الأ سرۃ۔'' 

یعنی علم شریف کی شرافت کو بڑھاتا ہے اور اہل علم بادشاہوں کی طرح تخت پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔
( تذکرہ الحفاظ : ج ا : ٥٨)
٣۔ حضرت مجاہد تفسیر قرآن کے ممتاز اور مشہور عالم ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر مجاہد انکی تفسیری بلند پر وازیوں پر بے حد مسرور ہوتے اور حضرت مجاہد کی سواری کا رکاب تھامتے اور اسی کو اپنے لئے وجہ شرف سمجھتے حضرت مجاہد کا خود اپنا بیان ہے۔'' ربما اخذ نی ابن عمر باالر کاب ۔''
( تذکرہ الحفاظ ، ج ا : ٨٦)
٤۔ امیر لیث بن سعد والی مصر امام زہری کے رکاب کو تھامتے تھے۔
( آداب ِ الشریعہ : ٢٥٦)
٥۔ امام زہری ؒ اپنے استاد عبید اللہ بن عمر کی خد مت کرتے ، کنویں سے پانی نکال کر انکے کھیتوں کو سینچا کرتے ۔
(تذکرہ الحفاظ : ٧٤)
٦۔ حضرت امام ابو حنیفہ اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی مختلف خدمات انجام دیتے کبھی ان کے گدّے کی روئی دھنتے کبھی بازار سے سبزی ترکاری اور گوشت وغیرہ خرید لاتے ۔ اسی طرح کے اور بہت سے کام کرتے ۔
( مقدمہ نصب الرایہ : ٤٠٤)
٧۔ عارف باللہ محدث ابراھیم حزلی کی تعظیم و تکریم کا واقعہ یا قوت حموی نے معجم الا دباء میں نقل کیا ہے کہ اسماعیل بن اسحاق قاضی وقت محدث یگانہ ابرا ھیم ہمیشہ یہ کہ کر ٹال دیتے کہ وہ قاضی مملکت اور وہاں دربانوں کو ہٹا کر آپ کو بصد اشتیاق بلا لیا ۔ امام ابراھیم پہنچے ،جوتا اتار کر فرش پر چلنے لگے تو قاضی صاحب نے حسنِ عقیدت سے ان کے جوتوں کو اٹھا کر ایک ریشمی کپڑے میں رکھ لیا ۔
تھوڑی دیر کے بعد جب امام صاحب واپس ہونے لگے تو قاضی صاحب نے ریشمی کپڑے سے ان کا جوتا نکال کر پیش کیا ۔ امام ابرا ھیم نے ا نکی عقیدت کا یہ حال دیکھا تو فرمایا :''غفرانکٰ اللہ ما اکرمت العلم۔'' یعنی اللہ تعالیٰ تکریم ِ علم کے سبب آپ کی مغفرت فرمائے ۔۔۔۔آمین ثم آمین۔
( علمائے دین اور أمراء اسلام : ٩٩۔١٠١)
جن بھی اپنے اساتذہ کی خدمت کرتے ہیں :

مولا نا ابرا ھیم میر سیالکوٹی ؒ لکھتے ہےں :'' ١٣١٦ھ میں جب یہ عاجز اپنے اور پنجاب کے استاد جناب حافظ عبد المنان صاحب مر حوم وزیر آبادی کی معیت میں پہلی بار حضرت میاں صاحب مر حوم ( سید نذیر حسین محدث دہلوی ؒ ۔ از ناقل) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ تو آپ نے ان ایام میں ایک دن مسجد میں آکر فرمایا کہ آج رات اس کمبخت نے ہم کو سونے نہیں دیا ۔ کبھی اس طرف پاؤں آ دباتا اور کبھی اس طرف سے ۔ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ جو جن آپ کا شاگرد تھا وہ رات کے وقت آپ کے پاؤں کو دبا یا کرتا تھا۔''
(تارےخ اہلحدیث : ٤٨٣)

Monday, November 12, 2018

Secretary Election result

No comments:
*MEDIA CELL*
    *Darul Huda monglora*
Secretary Election results
آج ١٢نومبر ٢٠١٨ کو الیکشن سیکریٹری دارُلھدیٰ منگلورہ کا نتیجہ منظر عام پر آیا  طلاب العلم میں سے دو طالب علم الیکشن میں حصہ لے رہے تھے
١: اُبان ظہور  منگلورہ
٢:سیرت قیوم  منگلورہ
دارُلھدیٰ منگلورہ کی شعوری
کے ممبران نے  سیرت قیوم کو 12votsسے کامیاب کیا  ۔۔۔۔۔
16نومبر کو انشاء اللہ اس ایک خاص تاج پوشی ہوگی
اور سیکریٹری دارُلھدیٰ منگلورہ کو خاص انعامات سے نوازا جائے گا ہر علم دوست شخصیت کو دعوت دی جاتی ہے
کہ وہ دن کے ٤بجے مسجد ابوبکر صدیق منگلورہ میں تشریف لے آئے  باقی وسلم
www.darulhudakunzer.blogspot.com

Saturday, October 13, 2018

Thursday, October 11, 2018

Monday, September 24, 2018

يوم عاشورا كا جشن منانے يا اس ميں ماتم كرنے كا حكم

No comments:
الحمد للہ :
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى سے اس سوال كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے اس كے جواب ميں فرمايا:
الحمد للہ رب العالمين، سب تعريفات اس رب كے ليے ہيں جو سب جہانوں كا پالنے والا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس بارہ ميں كوئى صحيح حديث وارد نہيں،اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے ثابت ہے، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى ايك نے اسے مستحب قرار ديا ہے، نہ تو آئمہ اربعہ نے اور نہ ہى كسى دوسرے نے، اور اسى طرح بااعتماد اور معتبر كتابوں كے مؤلفين نے بھى اس بارہ ميں كچھ روايت نہيں كيا، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام اور تابعين عظام سے، اس بارہ ميں نہ تو صحيح روايت ہے اور نہ ہى ضعيف، اور نہ تو كتب صحيح ميں اور نہ ہى كتب سنن ميں اور نہ ہى مسانيد ميں.
بلكہ افضل اور بہتر ادوار اور قرون اولى ميں تو ان احاديث ميں سے كچھ بھى معروف نہيں تھا، ليكن بعض متاخرين اور بعد ميں آنے والوں نے اس كے متعلق كچھا احاديث روايت كى ہيں مثلا يہ روايت بيان كى جاتى ہے كہ:
جس نے يوم عاشوراء ميں سرمہ لگايا اسے اس سال آنكھ درد نہيں ہو گى، اور جس نے يوم عاشوراء كو غسل كيا وہ اس برس بيمار نہيں ہو گا.
اور اس طرح كى كئى ايك روايات بيان كى جاتى ہيں، اور يوم عاشوراء ميں نماز ادا كرنے كى فضيلت ميں بھى روايات بيان كرتے ہيں، اور يہ بھى روايات كيا ہے كہ: آدم عليہ السلام كى توبہ يوم عاشوراء ميں ہوئى، اور نوح عليہ السلام كى كشتى جودى پہاڑ پر يوم عاشوراء ميں ہى ركى، اور يوسف عليہ السلام يعقوب عليہ اسلام كے پاس اسى دن واپس كيے گئے، اور ابراہيم عليہ السلام نے آگ سے نجات بھى اسى دن پائى، اور اسماعيل ذبيح عليہ السلام كے فديہ ميں اسى دن مينڈھا ذبح كيا گيا، وغيرہ .
اور ايك موضوع حديث جو كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ ہے ميں بيان كيا گيا ہے كہ:
" جس نے يوم عاشوراء ميں اپنے گھر والوں كو وسعت كسائش دى اللہ تعالى سارا سال اسے آسانى اور كسائش دے گا"
( پھر اس كے بعد شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے عراق كى سرزمين كوفہ ميں پائے جانے والے ان دونوں گمراہ فرقوں كو بيان كيا ہے جو يوم عاشوراء كو اپنى بدعات كے ليے يوم جشن كے طور پر مناتے تھے )
رافضى گروہ ( شيعہ ) جو اہل بيت سے محبت اور انس ظاہر كرتے ہيں حالانكہ وہ باطنى طور پر يا تو ملاحدہ اور زنادقہ ہيں، يا پھر جاہل اور خواہشات كے پيروكار ہيں.
اور دوسرا گروہ نواصب كا ہے، جو فتنہ اور فساد كے وقت قتل و غارت ہونے كى بنا پر على رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھيوں سے بغض كا اظہار كرتے ہيں، حالانكہ مسلم شريف ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ( قبيلہ ) ثقيف ميں ايك كذاب اور اور ايك خونريزى كرنے والا ہو گا"
لہذا مختار بن ابو عبيد الثقفى كذاب تھا، اور وہ اہل بيت سے دوستى اور محبت كا اظہار كرتا اور ان كى مدد كرنے كا دعويدار تھا، اور عراق كے امير عبيد اللہ بن زياد كو قتل كيا جس نے وہ پارٹى تيار كى جس نے حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قتل كيا اور پھر اس نے كذب كا اظہار كرديا اور نبوت كا دعوى كرتے ہوئے كہا كہ اس پر جبريل عليہ السلام نازل ہوتے ہے، حتى كہ وہ ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كو كہنے لگے: انہوں نے ان ميں سے ايك كو كہا: مختار بن ابو عبيد كا خيال ہے كہ اس پر وحى نازل ہوتى ہے، تو انہوں نے كہا وہ سچ كہتا ہے:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{كيا ميں تمہيں اس كى خبر نہ دوں جس پر شيطان نازل ہوتے ہيں تا كہ وہ اپنے دوستوں كو يہ وحى كريں كہ وہ تم سے لڑيں}.
اور رہا خونريزى كرنے والا تو وہ حجاج بن يوسف الثقفى تھا، اور يہ شخص على رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھيوں سے منحرف تھا، لہذا يہ نواصب ميں سے ہے، اور پہلا روافض ( شيعہ ) ميں سے تھا، اور يہ رافضى سب سے بڑا جھوٹ پرداز اور بہتان باز، اور دين ميں الحاد كرنے والا تھا، كيونكہ اس نے نبوت كا دعوى كيا.
اور كوفہ ميں ان دونوں گروہوں كے مابين لڑائى اور فتنہ وقتال تھا، لہذا جب يوم عاشوراء ميں حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما شہيد ہوئے اور انہيں باغى اور ظالم گروہ نے قتل كيا، اور اللہ تعالى نے حسين رضى اللہ تعالى كو خلعت شہادت سے نوازا اسى طرح اہل بيت ميں سے دوسروں كو بھى شہادت سے سرفراز كيا، ان ميں سے حمزہ اور جعفر رضى اللہ تعالى عنہما كو شہادت كى عزت دى، اور حسين رضى اللہ تعالى كے والد على رضى اللہ تعالى كو بھى شہادت جيسى عزت سے نوازا، اور اس كے علاوہ دوسروں كو بھى.
اور حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى يہ شہادت ان اشياء ميں سے تھى جن كے ساتھ اللہ تعالى نے ان كے مقام و مرتبہ كو اور بلند كرديا اور ان كے درجات ميں اضافہ كيا كيونكہ وہ اور ان كے بھائى حسن رضى اللہ تعالى عنہ جنتى نوجوانوں كے سردار ہيں، اور پھر بلند و بالا مقام و مرتبہ بغير كسى ابتلاء اور آزمائش كے حاصل نہيں ہوتا، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا گيا كہ: سب سے زيادہ كن لوگوں كى آزمائش ہوتى ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" انبياء كى اور پھر صالحين كى پھر سب سے زيادہ بہتر اور اچھے شخص كى اور پھر اس سے كم كى، آدمى كى آزمائش اس كے دين كے مطابق ہوتى ہے، لہذا اگر وہ اپنے دين ميں پختہ اور سخت ہو اس كى آزمائش اور تكليف ميں اضافہ ہوجاتا ہے، اور اگر اس كے دين ميں كمى اور ہلكا پن ہو تو آزمائش بھى كم ہو جاتى ہے، اور ايك مومن شخص پر آزمائش رہتى ہے حتى كہ وہ زمين پر چلتا ہے تو اس كا كوئى گناہ باقى نہيں رہتا" اسے ترمذى وغيرہ نے روايت كيا ہے.
لہذا حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما كو اللہ تعالى كى جانب سے جو كچھ مرتبہ اور منزلت اور درجہ حاصل تھا وہ مل گيا، اور ان دونوں كے ليے وہ آزمائش اور تكليف نہيں آئى جو ان كے سلف اور پہلے لوگوں پر آئى تھى، اس ليے كہ حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما تو اسلام كى عزت ميں پيدا ہوئے، اور عزت اكرام ميں پرورش پائى، اور سب مسلمان ان كىعزت و تكريم كرتے تھے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات ہوئى تو وہ ابھى سن تميز كو بھى نہيں پہنچے تھے، تو اللہ تعالى كى ان پر يہ نعمت تھى كہ انہيں آزمائش ميں ڈالا جو انہيں ان كے خاندان والوں كے ساتھ ملائے، جيسا كہ ان سے بہتر اور اچھے اور نيك بھى آزمائش ميں پڑے، اس ليے كہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ ان دونوں سے بہتر اور افضل تھے، اور انہيں شہادت كى موت آئى اور قتل كرديا گيا.
اور حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت ايسى تھى جس كى بنا پر فتنوں نے سر ابھار ليا اور لوگوں كے مابين فتنے پھوٹ پڑے، جس طرح كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كا قتل فتنوں كو لانے والے اسباب ميں سے سب سے بڑا سبب تھا، جس نے لوگوں كے مابين فتنے پھيلا ديے، اور اس كى بنا پر ہى امت مسلمہ جدا جدا ہو گئى اور اس ميں قيامت تك تفرقہ پڑ گيا، اسى ليے حديث ميں آيا ہے كہ:
" تين اشياء سے جو كوئى بھى نجات پا گيا وہ كامياب ہوا اورنجات پا گيا، ميرى موت، اور خليفہ كو صبركى حالت ميں قتل كرنا، اور دجال"
( پھر شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے حسن رضى اللہ تعالى عنہ كے عدل وانصاف اور ان كى سيرت كا كچھ حصہ ذكر كيا ہے حتى كہ وہ كہتے ہيں:
پھر وہ فوت ہو گئے اور اللہ تعالى كى عزت و تكريم اور اس كى رضامندى كى طرف چلے گئے، اور ان گروہوں نے جنہوں نے حسين رضى اللہ تعالى عنہ كو خطوط لكھے اور ان سے مدد و تعاون كا وعدہ كيا كہ اگر وہ معاملے كو لے كر اٹھ كھڑے ہوں تو وہ سب ان كے ساتھ ہيں، حالانكہ وہ لوگ اس كے اہل نہيں تھے، بلكہ جب حسين رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنے چچازاد كو ان كى طرف روانہ كيا تو انہوں نے اس كے ساتھ وعدہ خلافى كى اور معاہدہ كو توڑ ديا اور ان كے خلاف ہو گئے جنہوں نے ان سے مدد كا وعدہ كيا تھا اور كہا تھا كہ ہم آپ كے ساتھ مل كر لڑيں گے، اور اہل رائے اور حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے محبت كرنے والوں نے مثلا ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما وغيرہ نے انہيں يہ مشورہ ديا كہ وہ ان كے پاس نہ جائيں ليكن انہوں نے ان كا مشورہ قبول نہ كيا، ان كے خيال ميں وہاں جانے ميں كوئى مصلحت نہيں تھى، اور اس كے نتائج بھى بہتر اور اچھے نہيں، اور واقعتا معاملہ بھى ايسا ہى ہوا جيسا انہوں نے كہا تھا، اور يہ اللہ تعالى كى جانب سے مقدر كردہ تھا، لہذا جب حسين رضى اللہ تعالى عنہ نكلے اور انہوں نے ديكھا كہ معاملات تو بدل چكے ہيں، تو انہوں نے ان سے مطالبہ كيا كہ مجھے واپس جانے دو يا پھر كسى سرحد پر جا كر لڑنے دو، يا اپنے چچا زاد يزيد كے پاس ہى جانے دو تو انہوں نے ان سب باتوں سے انكار كرديا اور ان كى بات تسليم نہ كى حتى كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كو قيدى بنا ليا اور ان سے لڑائى اور جنگ كرنے لگے تو حسين رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى ان سے لڑائى كى تو انہوں نے حسين رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھ كچھ لوگوں كو بھى قتل كرديا يہ ايك مظلوم كى شہادت تھى جس كے ساتھ اللہ تعالى نے انہيں عزت و شرف سے نوازا اور انہيں ان كے طيب اور طاہر اہل بيت كے ساتھ ملا ديا، اور جنہوں نے ان پر ظلم اور زيادتى كى اللہ تعالى نے اس شہادت كے ساتھ انہيں ذليل و رسوا كرديا، اور اس نے لوگوں كے مابين شر اختيار كر ليا، لہذا ايك گروہ ظالم اور جاہل بن گيا، يا تو يہ گروہ ملحد اور منافق ہے يا گمراہ اور راستے سے بھٹك چكا ہے، اور ان سے اور اہل بيت سے اپنى محبت تو ظاہر كرتا ہے اور يوم عاشوراء ميں ماتم اور نوحہ كرتا اور غم ميں مبتلا ہوتا ہے، اور اس دن جاہليت كے كام اور شعار ظاہر كرتے ہوئے منہ اور جسم كو پيٹتا اور كپڑے پھاڑتا اور دور جاہليت كى تعزيت كرتے ہوئے تعزيہ نكالتا ہے، جس كے بارہ ميں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مصيبت - اگر نئى ہو تو - ميں حكم ديا ہے كہ صبر و تحمل اور برداشت سے كام ليا جائے اور انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھا جائے اور اجروثواب كى نيت كى جائے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:
{اور صبر كرنے والوں كو خوشخبرى دے ديں، جب انہيں كوئى مصيبت اور تكليف پہنچتى ہے تو وہ كہتے ہيں بلا شبہ ہم اللہ تعالى كے ليے ہيں اور اسى كى طرف پلٹنے والے ہيں، يہى ہيں جن پر اللہ تعالى كى نوازشيں اور رحمتيں ہيں، اور يہى ہدايت يافتہ ہيں}
اور صحيح ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى رخسار پيٹے اور كپڑے پھاڑے، اور جاہليت كى پكار لگائے وہ ہم ميں سے نہيں "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں مصيبت ميں نوحہ كرنے والى، اور بال منڈانے والى اور كپڑے پھاڑنے والى سے برى ہوں"
اور فرمايا:
" اگر نوحہ كرنے والى موت سے قبل توبہ نہيں كرتى تو روز قيامت وہ اٹھے گى اور اس پر گندھك كى قميص اور خارش كى درع ہو گى"
اور مسند ميں فاطمہ بنت حسين رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ اپنے والد حسين رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس شخص كو بھى كوئى مصيبت اور تكليف پہنچتى ہے تو وہ اپنى مصيبت كو ياد كرتا ہے اگرچہ اسے زيادہ دير بھى ہو چكى ہو تو وہ اس پر انا للہ وانا اليہ راجعون كہے تو اللہ تعالى اس كے بدلے ميں اسے اس دن جس ميں اسے مصيبت پہنچى تھى جتنا ہى اجروثواب دے گا"
اور يہ اللہ تعالى كى جانب سے مومنوں كى عزت و تكريم ہے، بلا شبہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ وغيرہ كى مصيبت اتنى مدت بعد بھى جب ياد كى جائے تو مومن شخص كو چاہيے كہ وہ اس ميں انا للہ وانا اليہ راجعون كہے، جيسا كہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے، تا كہ اسے بھى مصيبت زدہ جتنا ہى اجروثواب حاصل ہو سكے جس دن اسے مصيبت پہنچى تھى، اور جب اللہ تعالى نے مصيبت آتے ہى اور اس كے قريبى وقت ميں صبر و تحمل كا حكم ديا ہے تو پھر جب مصيبت كو ايك لمبى مدت گزر چكى ہو تو كيسے ہوگا.
گمراہ اور غلط راستے پر چلنے والوں كے ليے شيطان نے جو كچھ مزين كيا اس ميں يوم عاشورا كا ماتم اور نوحہ و آہ و بكا اور مرثيے اور غم وحزن كے اشعار پڑھنا بھى شامل ہے، كہ اسے ماتم كا دن بنايا جائے، اور اس دن وہ جھوٹى اور من گھڑت روايتيں بيان كرتے ہيں، اور سچائى تو يہ ہے كہ اس ميں غم اور پريشانى كى تجديد اور تعصب اور دشمنى اور مخالفت پيدا كرنے اور لڑائى اور اہل اسلام كے مابين فتنہ پيدا كرنے كے علاوہ كچھ نہيں، اور اس كے ساتھ پہلے سابقين الاولين پر سب وشتم، اور كذب بيانى ميں كثرت، اور دنيا ميں فتنہ وفساد تك پہنچنے كا وسيلہ ہے، اسلام ميں پائے جانے والے فرقے اور گروہوں ميں اس گمراہ اور حق سے پھسلے ہوئے فرقہ كے علاوہ كوئى فرقہ زيادہ جھوٹا اور فتنہ وفساد پيدا كرنے والا اور كفار كے ساتھ دوستى اور مسلمانوں كے خلاف كفار كا تعاون و مدد كرنے والا كوئى اور فرقہ نہيں، يہ اسلام سے نكلے ہوئے خارجيوں سے بھى زيادہ شرير ہيں، انہيں كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اہل اسلام ( مسلمانوں ) كو فتنہ ميں ڈالتے اور بت پرستوں كو چھوڑتے ہيں انہيں كچھ نہيں كہتے"
اور يہى ہيں جو اہل بيت اور مسلمانوں كے خلاف يہوديوں اور عيسائيوں اور مشركوں كى مدد و تعاون كرتے ہيں، بالكل اسى طرح جس طرح انہوں نے تركيوں اور تتاريوں ميں سے مشرك لوگوں كى بغداد وغيرہ ميں جو كچھ انہوں نے خانوادہ نبوت اور عباس كى اولاد اہل بيت اور ان كے علاوہ دوسرے مومن اور مسلمانوں كے ساتھ كيا اور انہيں قتل كيا ان كا خون بہايا اور ان كے گھروں كو منہدم كيااس ميں مدد و تعاون فراہم كيا، ايك عقلمند اور مسلمانوں كوجو كچھ ضرر و نقصان اس فرقہ اور گروہ نے ديا ہے اسے ايك عقلمند اور فصيح الكلام شخص شمار بھى نہيں كرسكتا.
اور اس فرقے اور گروہ كے مقابلے ميں كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يا تو ناصبى جو حسين رضى اللہ تعالى عنہ اور اہل بيت پر تعصب ركھتے ہيں، يا پھر جاہل ہيں جو فساد اور غلط كام كے مقابلے ميں غلط اور فساد سے كام ليتے ہيں اور جھوٹ كا مقابلہ جھوٹ اور شر و برائى كا مقابلہ شر اور برائى اور بدت كے مقابلے ميں بدعات كرتے ہيں، لہذا انہوں نے فرحت و سرور اور خوشى كى علامات ميں كچھ ايسے آثار اور احاديث وضع كرليں جن ميں يوم عاشوراء كو يہ اعمال كرنا كا بيان ہے، مثلا:
سرمہ اور خضاب لگانا، اور اہل و عيال پر فراخدلى سے زيادہ خرچ كرنا، اور عام طور پر عادت سے ہٹ كر مختلف قسم كے كھانے پكانا، وغيرہ دوسرے اعمال جو مختلف تہواروں اور موسموں ميں كيے جاتے ہيں، لہذا ان لوگوں نے يوم عاشورا كو دوسرے تہواروں جيسا ايك تہوار بنا ليا ہے اس ميں خوشى اورسرور مناتے ہيں، اور دوسرے گروہ ( شيعہ ) اس دن ميں ماتم كرتے اور مرثيے پڑھتے ہيں اور غمزدہ پريشانى كا اظہار كرتے ہيں، اور يہ دونوں گروہ اور فرقے غلط ہيں اور سنت سے باہر ہيں، اگرچہ يہ لوگ ( رافضى اور شيعہ ) مقصد كے اعتبار سے برے اور بہت زيادہ جاہل، اور ظاہرا ظالم ہيں، ليكن اللہ عزوجل نے عدل وانصاف اوراحسان كا حكم ديا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جو بھى ميرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زيادہ اختلاف ديكھے گا، لہذ تم ميرى اور ميرے بعد خلفاء راشدين كى سنت كو لازم پكڑنا، اس پر عمل كرو اور اسے مضبوطى سے تھامے ركھو، اور نئے نئے كام سے بچو كيونكہ ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے"
نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اور نہ ہى ان كے خلفاء راشدين نے يوم عاشوراء ميں يہ كام مسنون كيے، نہ تو غم و پريشانى اور نہ ہى خوشى و فرحت كى علامات كا اظہار، ليكن يہ ہے كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو مدينہ كے يہوديوں كو ديكھا كہ وہ يوم عاشوراء كا روزہ ركھتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ كيا ہے؟
تو وہ كہنے لگے: يہ وہ دن ہے جس ميں اللہ تعالى نے موسى عليہ السلام كو غرق ہونے سے نجات دى تھى لہذا ہم اس دن كا روزہ ركھتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم سے زيادہ موسى عليہ السلام كے حقدار ہيں، لہذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى روزہ ركھا اور اس دن كا روزہ ركھنے كا حكم بھى ديا"
اور دور جاہليت ميں قريش بھى اس دن كى تعظيم كرتے تھے، اور جس دن كا روزہ ركھنے كا حكم ديا وہ ايك دن تھا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں تشريف لائے اور اگلے سال يوم عاشورا كا روزہ ركھا اور اس كا روزہ ركھنے كا حكم بھى ديا، پھر اسى برس رمضان المبارك كے روزے فرض كر ديے گئے تو عاشوراء كا روزہ منسوخ ہو گيا.
علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ: كيا اس دن كا روزہ واجب تھا؟ يا مستحب؟
اس ميں دو مشہور قول ہيں، ان ميں صحيح يہى ہے كہ يہ روزہ واجب تھا، پھر بعد ميں اسے استحباب ميں بدل ديا گيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عام لوگوں كو اس كا روزہ ركھنے كا حكم نہيں ديا بلكہ آپ فرمايا كرتے تھے:
" يہ يوم عاشوراء ہے، ميں روزہ سے ہوں لہذا جو كوئى روزہ ركھنا چاہے روزہ ركھے"
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى فرمايا:
" يوم عاشوراء كا روزہ ايك سال كے گناہوں كا كفارہ ہے، اور يوم عرفہ كا روزہ دو برس كے گناہوں كا كفارہ ہے"
اور جب نبى كريم صلى اللہ وسلم كى زندگى كے آخرى ايام تھے اور جب انہيں يہ علم ہوا كہ يہودى اس دن كو تہوار اور عيد كے طور پر مناتے ہيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر ميں آئندہ برس زندہ رہا تو ميں نو محرم كا روزہ ركھوں گا"
تا كہ يہوديوں كى مخالفت كرسكيں، اور اس دن كو ان كے تہوار منانے ميں ان كى مشابہت نہ ہو سكے، اور صحابہ كرام اور علماء صرف يوم عاشوراء كا روزہ ركھنا مكروہ سمجھتے تھے، جيسا كہ كوفيوں كے ايك گروہ سے نقل كيا جاتا ہے، اور كچھ علماء اس كا روزہ مستحب قرار ديتے ہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ: جو شخص يوم عاشوراء كا روزہ ركھے اسے اس كے ساتھ نو محرم كا بھى روزہ ركھنا چاہيے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا آخرى امر ہے اس كى دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر ميں آئندہ برس زندہ رہا تو ميں دس كے ساتھ نو كا بھى روزہ ركھوں گا"
جيسا كہ حديث كے بعض طرق ميں اسى تفسير كے ساتھ آيا ہے، لہذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہى مسنون كيا ہے، ليكن اس كے علاوہ باقى سب امور: مثلا عادت سے ہٹ كر كوئى كھانا تيار كرنا، چاہے وہ دانے ہوں يا كوئى اور چيز، يا پھر نيا لباس زيب تن كرنا، اور اہل وعيال پر خرچہ ميں وسعت اور زيادہ كرنا، يا اس دن پورے سال كا راشن خريدنا، يا كوئى مخصوص عبادت كرنا، مثلا اس كى مخصوص نماز، يا قربانى ذبح كرنا، يا قربانى كا گوشت اس مقصد سے ركھـ لينا كہ اس گوشت كے ساتھ دانے پكائے جائيں، يا سرمہ اور خضاب وغيرہ لگانا، يا غسل كرنا يا مصافح كرنا، يا ايك دوسرے كى زيارت كرنا، يا مسجدوں اور مشاہد كى زيارت كرنا، اس كے علاوہ دوسرے امور، يہ سب كچھ بدعات اور منكرات ميں شامل ہوتے ہيں، جن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت نہيں ملتا اور نہ ہى ان كے خلفاء الراشدين سے مسنون ہے، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى ايك نے اسے مستحب قرار ديا ہے، نہ تو امام مالك رحمہ اللہ اور نہ ہى امام ثورى اور امام ليث بن سعد اور نہ ہى امام ابو حنيفہ رحمہم اللہ نے، اورنہ امام اوزاعى اور امام شافعى اور نہ ہى امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہويہ رحمہم اللہ نے، اور نہ ہى ان جيسے دوسرے مسلمان آئمہ كرام مسلمان علماء نے..
اور دين اسلام تو صرف دو اصلوں پر قائم ہے يعنى وہ صرف يہ ہے كہ ہم اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كريں، اور اس كى عبادت بھى اس طرح كريں جو ثابت اور مشروع ہے، ہم اس كى عبادت بدعات و خرافات كے ساتھ نہيں كرينگے.
فرمان بارى تعالى ہے:
{جو كوئى بھى اللہ تعالى كى ملاقات كى اميد ركھتا ہے اسے چاہيے كہ وہ اعمال صالحہ كرے اور اپنے رب كى عبادت ميں كسى دوسرے كو شريك نہ كرے}
لہذا عمل صالح وہ ہے جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو پسند اور محبوب ہو، وہى عمل مشروع اور مسنون ہے، اسى ليے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ اپنى دعا ميں يہ كہا كرتے تھے:
اے اللہ ميرے سارے عمل صالح بنا اور اسے اپنے ليے خالص بنا دے، اور اس ميں كسى دوسرے كو كچھ بھى نہ ركھ.
انتہى. شيخ الاسلام كى كلام كا اختصار ہے. )
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 5 )
اللہ تعالى ہى سيدھے راستے كى راہنمائى كرنے والا ہے.
واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجدhttps://islamqa.info/ur/4033

Sunday, September 16, 2018

Thursday, September 13, 2018

محرم الحرام

No comments:







تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں، درود و سلام ہوں ہمارے نبی خاتم الانبیاء اور سید المرسلین محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پر آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر، حمد و صلاۃ کے بعد:
ماہِ محرم بہت ہی عظیم اور با برکت مہینہ ہے یہ مہینہ ہجری سال کا پہلا اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ)
ترجمہ: بیشک مہینوں کی تعداد اللہ تعالی کے ہاں تحریر میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے دن سے ہی بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی مضبوط دین ہے، اس لیے ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم مت کرو۔ [سورۃ توبہ: 36]
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں ، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم مسلسل ہیں  جبکہ جمادی اور شعبان کے درمیان  مضر قبیلے کا ماہِ رجب ہے[چوتھا حرمت والا مہینہ ہے]) بخاری: (2958)
ماہِ محرم کی وجہ تسمیہ یہ  ہے کہ یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس کی حرمت کی تاکید کیلیے اسے محرم کا نام دیا گیا۔
فرمانِ باری تعالی :  (فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ) کا مطلب یہ ہے کہ  ان حرمت والے چاروں مہینوں میں گناہوں سے خصوصی طور پر پرہیز کرو، کیونکہ ان مہینوں میں گناہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت زیادہ سنگین ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ) یعنی سال کے تمام مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، پھر ان میں سے چار مہینوں کو مزید خصوصیت دی  اور ان کا احترام  دیگر مہینوں سے زیادہ بناتے ہوئے ان میں کی ہوئی نیکی یا بدی  کو دیگر مہینوں سے زیادہ اہمیت دی۔
قتادہ رحمہ اللہ  فرمانِ باری تعالی : (فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ) کے بارے میں کہتے ہیں: 
"حرمت والے مہینوں میں ظلم  کرنا دیگر مہینوں میں ظلم کرنے سے کہیں زیادہ سنگین ہے، اگرچہ ظلم کسی بھی وقت ہو وہ ایک جرم ہی ہے لیکن اللہ تعالی نے ان چار مہینوں میں ظلم کو مزید سنگین قرار دیا ہے، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اہمیت دینے والا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ: اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات میں سے کچھ کو اپنا چنیدہ بنایا، چنانچہ فرشتوں میں سے رسول بنائے، لوگوں میں سے رسول چنے، کلام اور گفتگو میں سے اپنے کلام کو چنا، زمین پر مساجد کو اعلی مقام بخشا، مہینوں میں  رمضان اور حرمت والے مہینوں کو عظمت بخشی، دنوں میں سے جمعہ کے دن کو اہمیت دی، راتوں میں سے لیلۃ القدر کو شان سے نوازا، اس لیے تم بھی ان چیزوں کا عظمت کا اعتراف کرو جنہیں اللہ تعالی نے عظمت بخشی ہے، اور ان چیزوں کی عظمت کا اعتراف بھی اسی طرح ہو گا جسے اللہ تعالی نے اس کا طریقہ کار اہل علم اور دانش کو سکھایا ہے" انتہی مختصراً
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر: سورۃ توبہ: آیت نمبر: (36)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ماہِ رمضان کے بعد افضل ترین نفل روزے اللہ کے مہینے ماہِ محرم کے ہیں) مسلم: (1982)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : "اللہ کا مہینہ" اس میں مہینے کی اللہ تعالی کی جانب اضافت  تعظیم کیلیے ہے۔
القاری کہتے ہیں کہ: اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ پورے ماہ محرم کے روزے مراد ہیں۔
لیکن یہ بات  ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے علاوہ کسی بھی  مہینے میں پورا مہینہ روزے نہیں رکھے، چنانچہ  اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ اس حدیث میں ماہِ محرم  کے اندر زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے، پورے مہینے کے روزے رکھنے کی ترغیب  نہیں دی گئی۔
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھنے کی بات ملتی ہے ، تو ہو سکتا ہے کہ ماہِ محرم  کی فضیلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں وحی کی گئی ہو، جس کی وجہ سے آپ اس مہینے کے روزے کثرت سے نہیں رکھ پائے۔
ماخوذ از: شرح مسلم ، از نووی۔
اللہ تعالی جس جگہ اور وقت کو چاہتا ہے اسے اپنے ہاں اعلی مقام عطا کر دیتا ہے۔
عز بن عبد السلام رحمہ  اللہ کہتے ہیں:
"مختلف جگہوں اور اوقات کی فضیلت کی دو قسمیں ہیں: 
پہلی قسم: دنیاوی فضیلت          دوسری قسم: دینی فضیلت
دینی فضیلت کا تعلق اللہ تعالی کے خصوصی فضل و کرم کے ساتھ ہے ، چنانچہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر خصوصی کرم و فضل فرماتے ہوئے اطاعت گزاروں کیلیے اجر و ثواب بڑھا چڑھا کر عطا فرماتا ہے، مثال کے طور پر: ماہِ رمضان  کی دیگر مہینوں پر فضیلت، اسی طرح دس محرم کی  فضیلت۔۔۔ ان تمام اشیا کی فضیلت کا تعلق خالصاً اللہ تعالی کے اپنے بندوں پر فضل و کرم اور احسان پر ہے" انتہی
"قواعد الأحكام" [1/38

Monday, August 6, 2018

شہید کون

No comments:
کیا ہے مقام شہید کا
۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید کے بے تحاشا فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں ، حقیقت میں یہ منصب یقینا ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کو شریعت نے عطا فرمایا ہے ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں ہر مرنے والے شخص کو شہید کا خطاب دیا جاتا ہے جبکہ حقیقی شہید کون ہے ؟
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن لوگوں کو شہید قرار دیا ہے ؟
آئیں ملاحظہ فرمائیں ۔

میدان جہاد  میں قتل کیا گیا شخص

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الْمَقْتُولُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهِيدٌ .
اللہ کے راستے ( جہاد ) میں قتل کیا گیا شخص شہید ہے۔
(سنن نسائی : 3163 صحيح)

 اللہ کی راہ میں وفات پانے والا

:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ .
جو شخص اللہ کی راہ میں وفات پا جائے وہ شہید ہے ۔
(صحیح مسلم : 1915)

 جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ .
جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے ۔ (صحیح بخاری : 2480)
:ایک روایت میں ہے کہ
!ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول
أَرَأَيْتَ إِنْ جَاءَ رَجُلٌ يُرِيدُ أَخْذَ مَالِي ؟ قَالَ : فَلَا تُعْطِهِ مَالَكَ قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَاتَلَنِي ؟ قَالَ : قَاتِلْهُ قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلَنِي ؟ قَالَ : فَأَنْتَ شَهِيدٌ ، قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلْتُهُ ؟ قَالَ : هُوَ فِي النَّارِ ۔
آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی آدمی آ کر میرا مال چھیننا چاہے ( تو میں کیا کروں؟ )
آپ نے فرمایا : اسے اپنا مال نہ دو۔
اس نے کہا : آپ کی کیا رائے ہے اگر وہ میرے ساتھ لڑائی کرے تو ؟
فرمایا : تم بھی اس سے لڑو ۔
اس نے پوچھا :
آپ کی کیا رائے ہے اگر وہ مجھے قتل کر دے تو ؟
آپ نے فرمایا : تم شہید ہو گے۔
اس نے پوچھا : آپ کی کیا رائے ہے اگر میں اسے قتل کر دوں ؟
فرمایا : وہ دوزخی ہوگا ۔ (صحیح مسلم : 360)

 پیٹ کی بیماری میں مرنے والا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الْمَبْطُونُ شَهِيد .
پیٹ کی بیماری (یعنی ہیضہ) سے مرنے والا شہید ہے ۔
(صحیح بخاری : 5733)

 طاعون کی بیماری میں مرنے والا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمَطْعُونُ شَهِيد .
طاعون کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے ۔ (صحیح بخاری : 5733)
ایک روایت کے لفظ ہیں :
الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ .
طاعون کی موت ہر مسلمان کے لیے شہادت ہے ۔
(صحیح بخاری : 2830)

و شخص  اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے

سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ   .
جو شخص  اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے ۔(سنن ترمذی : 1421 صحیح )

 جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی سواری سے گر کر مرجائے

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صُرِعَ عَنْ دَابَّتِهِ فِي سَبِيْلِ للهِ فَهُوَ شَهِيدٌ .
جو شخص اللہ کے راستے میں اپنی سواری سے گر کر مر جائے ، وہ شہید ہے ۔ ( سلسلة الاحاديث الصحیحة : 2152)

 نمونیہ میں مرنے والا

سیدنا جابر بن عتیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيد .
نمونیہ میں مرنے والا شہید ہے ۔(سنن ابي داؤد : 3111 صحیح)

 جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے

سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ .
جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے  ۔
( سنن ترمذی : 1421 صحیح )

 ڈوب کر مرنے والا

سیدنا جابر بن عتیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اَلْغَرِقُ شَهِيدٌ .
ڈوب کر مرنے والا شہید ہے ۔( سنن ابي داؤد : 3111 صحيح )

 دب کر مرنے والا

سیدنا جابر بن عتیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ .
( عمارت یا کسی چیز کے نیچے آکر ) دب کر مرنے والا شہید ہے ۔
( سنن ابي داؤد : 3111 صحيح )

 جل کر مرنے والا

سیدنا جابر بن عتیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ .
جل کر مرنے والا شہید ہے ۔( سنن ابي داؤد : 3111 صحيح )

 درد زہ میں مرنے والی عورت

سیدنا جابر بن عتیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ .
وہ عورت جو بچہ جننے کی تکلیف ( درد زہ) میں مر جائے وہ شہید ہے ۔( سنن ابی داؤد : 3111 صحيح )

جو شخص ظلم سے بچنے میں مارا جائے

سیدنا سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَظْلَمَتِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ .
جو شخص ظلم سے بچنے میں مارا جائے وہ شہید ہے۔
( سنن نسائی : 4127 صحيح )

 عمر و عثمان رضي الله عنھما شہید ہیں

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ :  اثْبُتْ أُحُدُ  ! فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ .
( ایک مرتبہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احد ! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔(صحیح بخاری : 3675)

 طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہے

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا :
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى شَهِيدٍ يَمْشِي عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ  .
جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ زمین پر چلنے والے کسی شہید کو دیکھے تو وہ طلحہ بن عبیداللہ کو دیکھ لے ۔( سنن ترمذي : 3739 صحيح )

 سیدہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا شہیدہ ہیں

سیدہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ بدر میں جانے لگے تو میں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! اپنے ساتھ مجھے بھی جہاد میں چلنے کی اجازت دیں ، میں آپ کے بیماروں کی خدمت کروں گی ، شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت نصیب فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قَرِّي فِي بَيْتِكِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَرْزُقُكِ الشَّهَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَتْ تُسَمَّى الشَّهِيدَةُ .
تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو ، اللہ تمہیں شہادت نصیب کرے گا ۔ راوی کہتے ہیں : چنانچہ انہیں شہیدہ کہا جاتا تھا ۔
آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک غلام اور ایک لونڈی کو اپنے مر جانے کے بعد آزاد کر دینے کی وصیت کر دی تھی ، چنانچہ وہ دونوں ( یعنی غلام اور لونڈی ) رات کو ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہی کی ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئیں اور وہ دونوں بھاگ نکلے، صبح ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ان دونوں کے متعلق جس کو بھی کچھ معلوم ہو، یا جس نے بھی ان دونوں کو دیکھا ہو وہ انہیں پکڑ کر لائے ، ( چنانچہ وہ پکڑ کر لائے گئے ) تو آپ نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا تو انہیں سولی دے دی گئی، یہی دونوں تھے جنہیں مدینہ منورہ میں سب سے پہلے سولی دی گئی۔
(سنن أبي داؤد : 591 : حسن)
ايک روایت میں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ :
انْطَلِقُوا بِنَا نَزُورُ الشَّهِيدَةَ .
ہمارے ساتھ چلو ! ہم شہید خاتون کی زیارت کریں ۔
(صحیح ابن خزیمة : 1676 : حسن )

ایک ضروری وضاحت

قارئین کرام : میدان جہاد میں دشمن کے ہتھیار سے قتل ہونے کے علاوہ باقی سب شہادتیں کم درجے کی ہیں اور ان کے احکام بھی ان شہیدوں کے سے نہیں ، لہذا انہیں غسل اور کفن کے ساتھ دفن کیا جائے گا ۔(سنن ابی داؤد مترجم 1/178 دارالسلام )

Featured Post

صدارتي خطاب

 

Search This Blog

 
back to top